بشارالاسد کا صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان

Bashar al-Assad

Bashar al-Assad

دمشق (جیوڈیسک) صدر بشار الاسد نے ایک لبنانی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ انہیں کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ وہ اگلے انتخابات میں حصہ نہ لیں۔ انہوں نے کہا حزب اختلاف سے مذاکرات کے لئے حالات ابھی سازگار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف کا کونسا دھڑا شامی عوام کا نمائندہ ہے جس سے بات چیت کی جائے۔

دوسری جانب وزیر خارجہ کیری نے پیرس میں عرب لیگ کے نمائندوں سے بات چیت کے بعد ذرائع کو بتایا کہ صدر اسد کے انتخاب میں حصہ لینے سے شام کے حالات مزید خراب ہوں گے۔ انہوں نے کہا وہ شامی حزب اختلاف کو مضبوط کریں گے۔

دوسری جانب صدر بشار الاسد نے شام میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لئے ایک روزہ بین الاقوامی امن کانفرنس کے انعقاد پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فی الوقت ایسے عوامل نظر نہیں آتے کہ یہ مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔ شامی صدر بشار الاسد نے ایک لبنانی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایسی کسی امن کانفرنس کی کامیابی کا دارومدار جن عوامل پر ہو سکتا ہے وہ ابھی تک موجود نہیں ہیں۔

اسد کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ ان مذاکرات میں اپوزیشن کی طرف سے کون نمائندگی کرے گا اور اگر کوئی وفد اس کانفرنس میں شریک ہوتا بھی ہے تو یہ دیکھنا ہو گا کہ شام کے اندر اس کی کیا ساکھ ہے۔ اس کانفرنس کے بارے میں بہت سے سوالات تشنہ طلب ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کون سے گروپ ہیں جو امن کانفرنس میں شرکت کریں گے؟۔ ان کا شامی عوام کے ساتھ کیا تعلق ہے؟۔ کیا وہ شامی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں یا صرف ایسے ملک کی جس نے انہیں بنایا ہے۔

اسد کا کہنا تھا کہ وہ اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ کسی مسلح دھڑے سے بات چیت نہیں کی جائے گی۔ اپنے اس انٹرویو میں انہوں نے شامی بحران کے لیے سعودی عرب، قطر اور ترکی پر الزام دھرتے ہوئے کہا کہ یہ ممالک باغیوں کی مدد کر رہے ہیں۔ اسد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک کے آئندہ صدارتی انتخابات میں ان کی شرکت میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

شامی اپوزیشن کے متعدد گروہ اسد کو اقتدار سے الگ کرنے کے خواہاں ہیں۔ واضع رہے کہ روس اور امریکا کئی ماہ سے اس کوشش میں ہیں کہ شامی بحران کے سیاسی حل کی خاطر جنیوا میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ممکن ہو سکے۔ شام میں گزشتہ دو برس سے جاری سیاسی انتشار کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ دو ملین سے زائد بے گھر۔

اس ابتر صورتحال میں بہتری کے لیے اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے جنیوا ٹو نامی کانفرنس کے انعقاد کے لیے وسط نومبر کا ہدف مقرر کیا ہے تاہم دمشق اور شامی اپوزیشن دونوں ہی اس بارے میں شک کا شکار ہیں، اس لیے اس حوالے سے ابھی تک کوئی تاریخ طے نہیں ہو سکی ہے۔