حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ حکومتِ وقت کی کوششوں، کاوشوں اور اے۔پی۔سی کے باوجود طالبان کی نیتوں کے فتور سے صاف نظر آتا ہے کہ وہ امن کے خواہاں ہیں نہ مذاکرات کے۔ طالبان ترجمان شاہد اللہ شاہد کہتے ہیں کہ وہ آئینِ پاکستان کے تحت کبھی مذاکرات نہیں کریں گے کیونکہ پاکستانی آئین جمہوری اور سیکولر اقوام کا ایجنڈا ہے اور پاکستانی حکومت غلام اور بے بس۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ وہ پہلے سے زیادہ منظم ، مضبوط اور ہر قسم کے حالات کے لیے تیار ہیں۔ اُن کا یہ مطالبہ ہے کہ حکومت جنگ بندی میں پہل کرے، ڈڑون حملے بند کروائے جائیں اور قیدی رہا کیے جائیں۔ مذاکرات کے جنوں میں مبتلا عمران خاں صاحب کے بارے میں اُس نے کہا کہ اگر عمران خاں کو مذاکرات کا شوق ہے تو ”کفریہ نظام” سے باہر آ کر بات کریں۔
جب سے حکومت نے مذاکرات کا ڈول ڈالا ہے طالبان نے دہشت گرد حملے تیز کر دیئے ۔اِن حملوں میں جنرل ، لیفٹیننٹ کرنل اور خیبر پختون خواہ کے وزیرِ قانون سمیت بہت سے لوگ جن میں خواتین ، بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے، اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔پشاور چرچ حملے کی ذمہ داری اگرچہ طالبان نے قبول نہیں کی لیکن اِس حملے کو وہ شریعت کے عین مطابق قرار دیتے ہیں۔ دینِ مبیں میں تو اقلیتوں کے حقوق اور اُن کے جان و مال کی حفاظت پر بہت زور دیا گیا ہے، پتہ نہیں یہ ”طالبانی شریعت ” کہاں سے آئی ہے اور یہ لوگ کس مذہب کے پیروکار ہیں جو اِس حملے کو جائز سمجھتے ہیں۔ طالبان کے ترجمان کے اِس انٹرویو کے بعد یہ سمجھنا احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف ہے کہ طالبان امن کے خواہاں ہیں۔
طالبان جمہوریت کو مانتے ہیں نہ آئینِ پاکستان کو جبکہ سپہ سالار جنابِ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے دو ٹوک الفاظ میں یہ کہا کہ اگر آئینِ پاکستان کے تحت امن مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو سب سے زیادہ خوشی فوج کو ہو گی۔ اُنہوں نے یہ بھی فرمایا کہ فوج دہشت گردی کے خلاف نپٹنے کی بھرپور اور مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب کہتے ہیں کہ ریاستی حکمرانی کو ہر قیمت پر یقینی بنائیں گے اور اگر دہشت گردوں کو آزادی کے مفہوم کے بارے میں کوئی غلط فہمی ہے تو دہشت گردی کے خلاف بنائے جانے والے نئے قوانین کے تحت یہ غلط فہمی دور ہو جائے گی۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ طالبان آئینِ پاکستان کو تسلیم کرتے ہوئے مذاکرات کا مثبت جواب دیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ جنگ بندی میں پہل حکومت کو منظور ہے نہ فوج کو ، ڈرون حملے امریکہ کر رہا ہے اور باوجود یکہ پاکستان نے ڈرون حملوں کا معاملہ جنرل اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں اٹھاتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ڈرون حملے ہماری سلامتی اور خود مختاری کے لیے چیلنج ہیں اور جنگی زون سے باہر کسی بھی ملک کے خلاف ڈرون حملوں کا استعمال عالمی قوانین کے منافی ہے اور اقوامِ متحدہ کے تفتیش کار کی یہ رپورٹ بھی منظرعام پر آ چکی ہے کہ پاکستان پر 330 ڈرون حملوں میں 2200 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بہت سے بے گناہ بھی تھے لیکن امریکہ کے گھر کی باندی اور در کی لونڈی اقوامِ متحدہ وہی کرے گی جو امریکہ کی مرضی ہو گی۔ افواجِ پاکستان اور حکمران اِس بات پر متفق ہیں کہ جتنی دیر تک طالبان ہتھیار پھینک کر آئینِ پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے، اُن سے مذاکرات ممکن نہیں۔ اِن حالات میں قومی غیرت و حمیت کا یہی تقاضہ ہے کہ طالبان کے خلاف بھرپور آپریشن کرکے حکومتی رٹ قائم کی جائے۔
طالبان سے مجوزہ مذاکرات کی ناکامی کے خدشات کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ امریکہ پاکستان میں امن چاہتا ہے نہ بھارت۔ جنابِ نواز شریف کی ”امریکہ یاترا” سے چند گھنٹے قبل امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار کا یہ بیان سامنے آ گیا کہ امریکہ نواز حکومت سے یہ جاننا چاہتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کس مرحلے میں ہیں اور نواز حکومت کے پاس طالبان سے نپٹنے کا کیا منصوبہ ہے۔ اب امریکہ میں محترم میاں نواز شریف صاحب سے ہر سطح پر یہ سوال پوچھا جائے گا اور میاں صاحب کے جواب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مذاکرات کی ناکامی کے لیے منصوبہ بندی کی جائے گی کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ اِس سے پہلے جب بھی طالبان کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کی کوئی کوشش کی گئی، امریکہ نے اسے سبوتاژ کر دیا۔ چند سال پہلے تک تو طالبان کے اندر بہت سے لوگ امن اور مذاکرات کے خواہاں تھے جنہیں امریکہ نے چُن چُن کرڈرون حملوں کی غذا بنا دیا اور اب طالبان کے اندر سی۔ آئی۔اے اور را کے ڈھیروں ڈھیر ایسے ایجنٹ موجود ہیں جو امن کے ہر گز خواہاں نہیں۔ اگر کچھ لوگ امن چاہتے بھی ہیں تو اُن کی کوئی آواز ہے نہ حیثیت۔ پچھلے دنوں پنجابی طالبان کے امیر نے جب امن مذاکرات کو خوش آمدید کہا تو حکیم اللہ محسود نے اُسے مکھن میں سے بال کی طرح نکال باہر کیا۔ طالبان کے بہت سے چھوٹے چھوٹے گروہ حکیم اللہ محسود کی چھتری تلے جمع ہیں۔ وہ سبھی حکیم اللہ کو اپنا امیر مانتے ہیں اور حکیم اللہ مذاکرات کا خواہاں نہیں۔ اَس لیے اگر کبھی کسی دباؤ کے تحت مذاکرات ہوئے بھی تو اُن کی ناکامی یقینی ہے۔
Imran Khan
دوسری طرف ہمارے سیاست دانوں کو حالات کی نزاکت کا معمولی سا احساس ہے نہ ادراک۔ ہر جگہ سیاسی بازیگری ہے اور سیاست دان مجمع بازوں کی طرح قوم کو بے وقوف بنانے میں مگن۔ عمران خاں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنائے بیٹھے ہیں۔ اُن کی حکومت کا وزیرِ قانون شہید ہو گیا، طالبانی خود کُش حملوں سے پشاور میں صفِ ماتم بچھ گئی لیکن پھر بھی خاں صاحب جا و بے جا مذاکرات کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ بلاول زرداری نے اُنہیں ”بُزدل خاں ” کہہ کر پکارا تو پوری تحریکِ انصاف کے تَن بدن میں آگ لگ گئی۔ محترمہ شیریں مزاری نے اسے شرمناک گردانتے ہوئے یہ فرمایا کہ یہ دونوں باپ بیٹا تو موت کے خوف سے اپنے ڈرائینگ روم سے باہر نہیں نکلتے۔مانا کہ خاں صاحب بہت بہادر ہیں لیکن لوگ تو یہی سمجھتے ہیں کہ لاشوں پہ کھڑے ہو کے مذاکرات کی بات کرنا بزدلی ہے۔
اے۔پی۔سی میں پیپلز پارٹی نے حکومت کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا لیکن ”صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں” کے مصداق ۔قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ کا بیان کچھ اور ہوتا ہے تو جنابِ آصف زرداری کی سمت کچھ اور سیاسی نو مولود پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول زرداری نے تو ایک ہی جست میں ساری حدیں پھلانگ ڈالیں۔ بلاول زرداری کی تقریر سے صرف ایک دن پہلے جنابِ آصف زرداری نے فرمایا کہ سیاسی پارٹیاں اگر آپس میں لڑ پڑیں تو تیسری قوت فائدہ اٹھائے گی۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا ”قدم بڑھاؤ نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن ہونہار فرزندِ ارجمند نے نواز لیگ کو بخشا، نہ تحریکِ انصاف کو اور نہ ہی ایم کیو ایم کو اُس نوجوان نے لگی لپٹی رکھے بغیر یہ کہا کہ آصف زرداری کمان ہیں اورمیں اُس کا تیر، ہم مل کر غریبوں کا خون چوسنے والے شیر کا شکار کریں گے۔ نوجوان زرداری نے کہا کہ پاکستان 1947ء میں آزاد ہو گیا تھا لیکن کراچی اب بھی لندن کا غلام ہے۔ ہم فون پر اُڑنے والی پتنگ کو کاٹ ڈالیں گے اور خیبر پختونخواہ کو سونامی سے بچائیں گے۔ لندن پلٹ بلوچ سردار نے یہ بھی کہا کہ عوام کی خاطر 2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 100 سیٹوں کی قربانی دی۔ اُنہوں نے اپنے اِس جملے کی تشریح نہیں کی لیکن شاید وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جیالوں کو دہشت گرد حملوں سے بچانے کی خاطر وہ میدان میں نکلے نہ انتخابی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لے سکے جس کی بنا پر پارٹی سکڑ ، سمٹ کر سندھ تک محدود ہو گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کواپنی کرپشن اور ”حرکتوں” کی وجہ سے یہ دن دیکھنا پڑا۔ اگر پی پی پی نے عوامی خدمت کو اپنا شعار بنایا ہوتا تو وہ گھر بیٹھے بھی جیت جاتی۔
لاریب باہم دست و گریباں سیاست دانوں کو مطلق احساس نہیں کہ وطنِ عزیز کس نازک موڑ پر آن پہنچا ہے۔ ہم تو دست بستہ یہی گزارش کر سکتے ہیں کہ سیاست سیاست کھیلنے کے لیے ابھی بہت وقت پڑا ہے پہلے دھرتی کے اُن دشمنوں سے تو نپٹ لیں جو دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور آپ اپنی حرکتوں کی طفیل کمزور سے کمزور تر۔