زاہد عاصم کوہ ِسلیمان کا انقلابی شاعر

Zahid Asim

Zahid Asim

کہا یہی جاتا ہے کہ پہاڑوں کے باسی نہایت سخت جان ہوتے ہیں ان کے جسم کی طرح ان کے دل بھی پتھر کے ہو جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دلوں کے گداز سے کوئی بھی محروم نہیں ہوتا ان کے دل بھی دوسروں ہی کی طرح دھڑکتے ہیں زاہد عاصم کا تعلق بھی سنگلاخ سلسلے کوہ سلیمان کے دامن میں واقع خوبصورت شہر تونسہ شریف سے ہے سخن شناسی ان کی شناخت بنی تو شاعری اُن کا اوڑھنا بچھونا ہو گئی شعوری آنکھیں کُھلیں تو فضائے شاعری میں محسن نقوی کی آواز گونج رہی تھی زاہد عاصم کا اِس آواز سے متاثر ہونا فطری امر تھا محسن کے جانے کے بعد ایک خلا پیدا ہو چلا تھا جسے پر کرنے میں زاہد عاصم جیسے نوجوان شعراء نے انتہائی اہم کردار ادا کیا اگر یہ کہا جائے کہ محسن نے جس شاعری کی بنیاد ڈالی تھی اس کی عمارت جنوبی پنجاب کے عصرِ حاضر کے نوجوان شعرا ء نے تعمیر کی تو بے جا نہ ہو گا یقینا مقصدیت کا جو پودا محسن نے لگا یا اس کی نگہداشت اور پرورش کرنے میں زاہد عاصم جیسے شعرا کا ہاتھ ہے۔

رومان پسندی اور زوال پرستی کے علاوہ حقیقت نگاری، ترقی پسند اور انقلابی شاعری نے بھی موجودہ صدی میں جنم لیا جسے انقلاب پسند ادبی قافلے کا نام دیا جاسکتا ہے سماجی برائیوں کا انسداد کرنے کے علاوہ یہ ذہین، متین، باشعور شاعروں کا طبقہ ہے جو وطن پرستی کے علاوہ قوم پرست بھی ہے جنوبی پنجاب میں زاہد عاصم، ڈاکٹر افتخار بیگ، مظہر یاسر، صابر عطاء جمشید ساحل اِسی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے بھوک، افلاس، بیماری اور انقلاب کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا زاہد عاصم ایک ایسی تبدیلی کی طرف مائل نظر آتے ہیں جہاں سسکتی ہوئی انسانیت اپنی ناکام خواہشات کی تکمیل میں سرگرداں ہے
مہنگے داموں مستقبل کے خواب خریدے جس نے
وہ معصوم بیچارہ اُنکو بیچ رہا ہے
ماں بیمار پڑی ہے گھر میں باپ نہیں ہے زندہ
بچہ اِک بازار میں آکر بستہ بیچ رہا ہے
عوامی نقطہء نظر سے اگر زاہد کی شاعری کو پرکھا جائے اسے رومانی کم انقلابی زیادہ کہا جا سکتا ہے۔

ان کی شاعری میں فکری عناصر کی بہتات ہے جذبات کا ایک سیلاب ہے کہ ٹھاٹھیں مار رہا ہے
ہلنا تو ہو گا جبر کی جڑوں کو ایک دن
زنجیر کہنہ رسم ہے جو دست و پا کے ساتھ
صدیوں کے ستم رسیدہ انسانوں کو سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ شکنجوں میں جکڑے دیکھ کر اُن کے کلام میں عوام کے دلوں کی دھڑ کنیں شامل نظر آتی ہیں اپنی شاعری میں وہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی لوٹ کھسوٹ کا احساس دلاتے ہیں جس سے زندگی کو ایک نئے معاشرتی نظام کے سانچے میں ڈھالنے کا عہد نظر آتا ہے
تاریخ کے ماتھے پہ تیرے نام کے آگے
اک روز میرا نام لکھا جائے گا پیارے
ایک طرف سیاسی، معاشی، اقتصادی، معاشرتی اور سماجی اقدار بدلی ہیں تو دوسری طرف ہر زبان کا ادب اور فن بھی گوناں گوں تغیرات سے ہمکنار ہوا ہے جہاں تک جنوبی پنجاب میں اردو شعرو ادب کا تعلق ہے اس میں بھی عہدِ حاضر میں تبدیلیاں ظہور پذیر ہوئی ہیں۔

شاعری کی قدیم روایات سے بغاوت ہوئی ہے نئے جذبات و احساسات کے اظہار کیلئے نئی بات اختراع کرنے کی کاوشیں ہوئی ہیں
خالی پیٹ بلکتے بچے ماں سے روٹھ کے بیٹھے ہیں
ہاتھی، شیر، غبارے، گڑیا آج اُنہیں بہلائیں کیا
زاہد کا لب و لہجہ اور انداز بیاں اِس امر کی دلیل ہے کہ وہ ایک نڈر اور بے خوف انسان کی طرح سچ کہنے کا یارا رکھتے ہیں چونکہ انہیں اپنے جذبات و احساسات کی برہنہ شمشیر پر پورا اعتماد ہے لہٰذا جب انہوں نے اپنے چاروں طرف آہیں، چیخیں، کراہیں قدم قدم پر ناکامیاں دیکھیں، محرومیاں دیکھیں تو اُن کے لب اِس طرح وا ہوئے
کچھ لوگ کفن دوش پہ رکھے ہوئے عاصم
قاتل کو بصد شوق سرِ عام پکاریں

 

Elephant

Elephant

انسان اور اس کی عظمت زاہد کا محبوب موضوع رہا ہے انسان جس کیلئے کائنات کو تشکیل دیا گیا، انسان جس نے اپنی عقل و فہم کے بل بوتے پر بڑے کارہائے نمایاں انجام دیئے جس نے کائنات کو مسخر کرنے کیلئے علوم وفنون اور فلسفہ سے مدد لی، جس نے خالق کے سر بستہ رازوں کو معلوم کرنے کیلئے قدم قدم پر شعور و ادراک کی شمعیں روشن کیں۔

ان تمام حقائق کے باوجود انسان اجتماعی زندگی کو خوشگوار بنانے اور کائنات کی تمام لذتوں سے بہرہ ور ہونے میں ناکام رہا لیکن خداکی واحدانیت کاا قرار کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا زاہد نے خدائے بزرگ و برتر کی واحدانیت کو ان الفاظ میں لکھا
نیرنگیئِ ادوار کے ہر دانگ میں تم ہو
بے رنگ اُجاڑوں میں، خرابوں میں تمہی ہو
سوچوں تو نشاں پائوں حقیقت میں تمہارا
دیکھوں تو زمانے کے سُرابوں میں تمہی ہو
رہتے ہو مظاہر میں تو باطن میں بسے ہو
دنیا کے سوالوں میں، جوابوں میں تمہی ہو
قاری ہوں، لکھاری ہوں، تمہارا ہی کرم ہے
لفظوں میں ،قلم اور کتابوں میں تمہی ہو
زاہد جدید، قدیم فکر دونوں کے حسیں امتزاج کو شاعری کا نام دیتے ہیں اور یہ اس وقت ممکن ہے جب فنکار تخلیقی عمل میں خون ِجگر صاف کرے انفرادی احساسات و کوائف کو اس طرح شعری جامہ پہنائے کہ وہ اجتماعی خصوصیات اور دوامی اقدار کی حامل ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ زاہد عاصم کے کلام میں شاعرانہ صداقت اور فنی خلوص اپنے عروج پر نظر آتا ہے لذتِ احساس اور خلوص کی تڑپ اُن کے فن کا اعجاز ہے
اپنے جذبوں کی نرم کلیوں پر
اوس بن کر اُتر رہا ہوں میں
دل میں عاصم لگی نہیں بُجھتی
دل لگی سے مکر رہا ہوں میں
زاہد عاصم کے نزدیک فن اور ادب کسی ملک کی جاگیر نہیں اِن کی حیثیت عالمگیر ہے جغرافیائی حد بندیاں انہیں تقسیم نہیں کر سکتیں یہ پورے عالم انسانیت کا مشترکہ سرمایہ ہیں ہر دور اور ہر زمانہ میں بلا امتیاز ملک و قوم لوگوں نے ایک دوسرے کے چراغ سے چراغ جلایا ہے اب بھی ایسا ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا اپنی تمام تر ترقی پسندی کے باوجود زاہد کے اندر اپنے شاعری ورثہ، دیرینہ ادبی روایات کے مٹنے کا شدید احساس موجود ہے
ہم نشیں، ہم نفس، ہم نوا رُک گئے
اجنبی سب میرے قافلے میں رہے
زندگی کے تلخ حقائق کا ظہار جس جرات اور بے باکی سے زاہد نے کیا ہے۔

اس دور میں شاذو نادر ہی کسی فنکار نے اس روش کو اپنایا اس مہذب اور متمدن سوسائٹی کا المیہ ہے کہ اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے زاہد نے جنوبی پنجاب کے دیگر شعرا ء کی طرح زندگی کے گھنائونے اور متعفن پہلوئوں کی تصویریں ہی نہیں پیش کیں بلکہ اُنہوں نے دکھی انسانوں، مجبوروں ، لاچاروں کے المیوں کو شاعری کی زباں دی
ہم تاریک نگر کے باسی کس کو منہ دکھلائیں کیا
کس نے سورج قتل کئے ہیں دنیا کو بتلائیں کیا
آخر میں دل کے تاروں سے پھوٹی ہوئی زاہد کی شعلہ بار شاعری جس کو آزاد نظم کی ہیئت میں سمو کر انہوں نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے یہ نظم ایک درد دل رکھنے والے حساس ذہن پر چرکے لگاتی ہے جس میں غربت کے ہاتھوں مجبور اور بے بس باپ کا دکھ نظر آتا ہے۔

کھلونوں سے بھرے بازار نے
اس کے قدم روکے
اسے گھر سے نکلتے وقت کے

لمحات یاد آئے
کہ جب بیمار بیٹے نے کہا اس سے………
”سنو پاپا…..!
میں اپنے اس پڑوسی سے کھلونا مانگ لایا تھا
اسے لوٹا دیا میں نے
اگر بازار جائو تو…….
میری خاطر
بہت اچھا
بہت پیارا کھلونا بھول نہ جانا
خداحافظ میرے پا پا ……خدا حافظ”
تو مُڑا……
اور نگاہ ڈالی کھلونے بیچنے والے کی ریڑھی پر
وہ لپکا
اور اٹھایا اک کھلونے کو
ڈالا ہاتھ کھیسے میں
معالج کے لکھے نسخے کی پرچی ہاتھ میں آئی
کھلونا رکھ دیا اس نے

M. R. Malik

M. R. Malik

تحریر : ایم آر ملک