خبر ہے کہ برونائی دارالسلام کے سلطان معزم یعنی بادشاہ سلامت نے اسلامی سزائوں کے قوانین کے اطلاق کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا اور زنا کے مرتکب افراد کو سنگسار کیا جا سکے گا جب کہ اسقاط حمل اور شراب نوشی پر کوڑوں کی سزا ہوگی، جس کا نفاذ آئیندہ 6 ماہ کے دوران ہو جائے گا۔ اسلام سے محبت کرنے اور چاہنے والوں کے لئے یقینا یہ خبر ایک خوش کن احساس لئے ہوئے ہوگی۔ مگر ایک سوال ذہن کے نہاں خانے میں گردش کر رہا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ کیا اسلامی قوانین صرف سزائوں تک ہی محدود ہیں۔۔؟ اسلام تو رواداری، مساوات، اخوت بھائی چارہ، بے جا نمود و نمائیش سے اجتناب اور سادگی کی تعلیم دیتا ہے۔ ایک ایسے معاشرے کی تصویر پیش کرتا ہے کہ جہاں سب آرام اور سکون کی زندگی گزار سکیں، کوئی غریب نہ ہو، رات کو کوئی بھوکا نہ سوئے۔ اور اگر اس کا مسلمان بھائی دکھ اور تکلیف میں ہے تو وہ بھی ویسا ہی دکھ تکلیف اور درد کو محسوس کرے۔
اس کے برعکس شام سے ایک خبر یہ بھی ہے کہ شام کے ابتر حالات کی وجہ سے شدید غذائی قلت پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے وہاں کے علماء نے کتے اور بلیوں کا گوشت کھانے کی اجازت دے دی ہے۔ کراچی میں گدھے کا گوشت فروخت ہو رہا ہے۔ قصائی ڈھٹائی سے اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم نے اس معاملے میں فتوی لیا ہوا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان سزائوں کے نفاد سے قبل اسلامی ممالک کے سب سے امیر اور دنیا کے چوتھے امیر ترین بادشاہ سلامت یہ اعلان کرتے کہ میں اپنی دولت غریب مسلمانوں میں تقسیم کر رہا ہوں، تاکہ کوئی غریب چوری نہ کرے، اپنے سونے اور ہیروں سے جڑے محلات کو چھوڑ کو سادہ زندگی گزارنے لگا ہوں۔ جیسا کہ رحمت العالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ تھا۔ پھر یہ اعلان بھی کرتے کہ میں اپنی 1000 سے زائد گاڑیوں کو ضرورت مندوں میں تقسیم کر رہا ہوں۔
Taliban
اپنا چارٹر جہاز عوام کے لئے وقف کر رہا ہوں۔ سونے سے تیار کی جانے والی دنیا کی مہنگی ترین گاڑی کو بیچ کر غریب مسلمانوں اور خاص طور سے شام کے مظلوم لاچار اور بے بس مسلمانوں بچوں اور عورتوں کی خوراک کا انتظام کرنے کے لئے دے رہا ہوں۔۔ کاش۔۔! اے کاش۔۔! کہ ایسا ہی کوئی ایک اعلان کیا ہوتا۔ مسلمان اس وقت دنیا کی مظلوم ترین قوم ہے۔ جن کی زندگیوں کو آج سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ اگر اسلامی ملکوں کے حکمران چاہیں تو قتل وغارت، نفرت، تشدد، دہشت گردی جیسی لعنتوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ اور اِدھر طالبان ہیں جو لاکھوں کا اسلحہ اٹھائے اسلامی قوانین کے نفاد کا اعلان بزور شمشیر کرنا چاہتے ہیں۔
اسلامی سزائیں بھی تب ہی کار آمد ہوں گی جب ملک میں انصاف اور مساوات کے اصولوں کو اپنایا جائے گا۔ جہاں امیر کو بھی غریب کی طرح اس کے جرم پر سزا ملے گی۔ کتنا اچھا ہو کہ تمام طالبان اپنا اسلحہ پھینک دیں اور اپنی زندگیوں کو غریب مسلمان بھائیوں کے لئے وقف کر دیں۔ فلاحی کاموں میں سب کا ہاتھ بٹائیں۔ بھائی چارے اور اخوت کی فضا کو پر وان چڑھائیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی جرم کرے تو پھر یقینا اس کو اسلامی قوانین کے تحت سزا دیں۔ مگر پہلے کوئی سازگار ماحول تو فراہم کریں کہ لوگ جرم ہی نہ کریں۔