عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نام، ابو عبداللہ اور ابو عمر کنیت، ذوالنورین لقب ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی موت کے وقت ایک انتخابی مجلس ترتیب دی اور اسے اپنے بعد خلیفہ منتخب کرنے کا کا م سپرد کیا۔ یہ انتخابی کونسل اُن چھ افراد پر مشتمل تھی جو اُس وقت قوم میں زیادہ با اثر اور مقبول عام تھے۔ اس مجلس نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خلیفہ تجویز کرنے کا اختیار دے دیا۔ انہوں نے چل پھر کر عام لوگوں سے معلوم کیا۔ حج پر تشریف لانے والوں سے پوچھا اور آخر کار اس نتیجہ پر پہنچے کہ لوگوں کا رجحان حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف ہے۔ اس پر مجمع عام میں ان کی بیعت ہوئی اور خلیفہ بنے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ بارہ سال چھ ماہ خلیفہ رہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وقت اسلام کے لئے بڑی قربانیاں دیں۔ جنگ تبوک کے موقع پر کثیر تعداد اونٹ جو مال سے لدھے ہوے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پیش کیے۔
جنگ تبوک کے موقعے پر ایک تہائی لشکر کے اخراجات بھی برداشت کیے۔ ہر وقت اسلام کی خدمت کے لیے تیار رہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دو بیٹیوں کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہوا۔ عرب کے سب سے بڑے تاجر تھے حضرت عمر کے دورِ خلافت میں غلے کا قحط پڑا، خلیفہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جن کے غلے سے لدھے اونٹ مدینہ کی طرف آ رہے تھے حکومت کو فروخت کے لیے کہا تو حضرت عثمان نے انکار کیا اور کہا جو آپ نے قیمت لگائی ہے اس سے زیادہ قیمت پر فروخت کروں گا خلیفہ ان سے ناراض ہوے۔ مگر جب غلے سے لدھے ہوے اُونٹ مدینے پہنچے تو حضرت عثمان نے تمام اُونٹوں کا غلہ بیت المال میں بغیر قیمت کے جمع کروا دیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی دعوت پر اسلام لائے تھے مکہ میں کفار کے ظلم ستم کی وجہ سے حبشہ کی ہجرت میں شامل تھے۔
جب رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اصحاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ہجرت مدینہ کا کہا تو مدینہ ہجرت کی غزوہ بدر میں اپنی کی بیماری کی وجہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم کے مطابق مدینہ میں ہی رہے باقی تمام مہمات میں شریک رہے غزوہ احد میں جب لوگ تتر بتر ہو گئے تو رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حفاظت کے لیے دوسرے چند صحابیوں رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ شریک رہے۔ صلح حدیبیہ میں رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سفیر بن کر کفار مکہ کے پاس گئے خبر مشہور ہو گئی کہ کفار نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شہید کر دیا ہے تو اس بات پر بیعت رضوان ہوئی جنگ تبوک پر ایک تہائیس لشکر کے اخراجات مہیا کئے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فیاضی سے اس قدر خوش تھے کہ اشرفیوں کو دست مبارک سے اچھالتے تھے اور فرماتے تھے ”آج کے بعد عثمان کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا”حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت شورائی طرز کا تھا۔
Hazrat Farooq Azam (R.A)
لوگوں کو آزادی کی اجازت تھی لوگ حکومت پر تنقید کرتے تھے مجلس شوریٰ میں عمال شامل تھے جو حکومت کو اہم معاملات میں مشورے دیتے تھے ان مجلس میں عمال سے تحریری مشورے طلب کئے جاتے تھے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں اختیارات کی تقسیم تھی فوج کے افسر کا عہدہ ایجاد کیا گیا تھا صوبے میں عامل اور فوج کا افسر علیحدہ اختیارات کا مالک ہوتا تھا۔ نگرانی کا نظام قائم تھا اس کے لیے دربار خلافت سے تحقیقاتی وفود روانہ کئے جاتے تھے جو تمام ممالک محروسہ میں دورہ کر کے عمال کے طرز عمل اور رعایا کی حالت کا اندازہ کرتے تھے جمعہ کے خطبے سے پہلے لوگوں سے اطراف ملک کی خبریں پوچھتے تھے حج کے موقعے پر تمام اعمال لازمی طور پر طلب کئے جاتے تھے اس لئے فوری شکایتوں کی تحقیقات کر کے تدراک کرتے تھے ملک کا نظم ونسق فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ والا ہی تھا مگر ملکی محاصل میں اضافہ کیا مصر کا ٢٠ لاکھ دینار سے ٤٠ لاکھ تک پہنچ گیا تھا ان کے دور میں اہل وظائف کا ایک ایک سو درہم کا اضافہ ہوا۔ لوگوں کے کھانے کا انتظام بھی کیا۔
صوبہ جات میں دفاتر کے لیے عمارتیں تیار کروائیں۔ سڑکیں، پل، مہمان خانے، مسجدیں تعمیر کروائیں۔ خیبر کی طرف سے کبھی کبھی سیلاب آیا کرتا تھا مسجد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور شہر کی آبادی کو نقصان پہنچتا تھا مدینہ سے تھوڑے فاصلہ پر مدری کے قریب ایک بند بنوایا اور نہر کھود کر سیلاب کا رخ دوسری طرف موڑ دیا اس بند کا نام مہروز ہے مسجد بنوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعمیر و توسیع کی۔ ملکی انتظامات کو تمام مقامات پر علیحدہ کیا مستقل فوجی افسروں کا ہر مقام پر تعینات کیا تمام ممالک میں گھوڑوں اور اونٹوں کی پرورش و پرداخت کے لیے نہایت وسیع چراگائیں بنوائیں چراگاہ کے قریب چشمے تیار کروائے اسلام میں بحری جنگ اور بحری فوجی انتظامات کی ابتداء خاص حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد خلافت سے ہوئی۔ نائب رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اصل فرض مذہب کی خدمت ہے اس فرض کو اچھے طریقے سے انجام دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ اکثر خوف خدا سے آبدیدہ رہتے تھے شرم وحیا حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کا امتیازی وصف تھا۔
Medina Shareef
فیاض تھے مدینے میں سارے کنوائیں کھاری تھے صرف بیر رومہ جو ایک یہودی کی ملکیت میں تھا شریں تھا رفاہ عامہ کے خیال سے اس کو بیس ہزار درہم میں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا آپ کاتب وحی تھے۔ طرابلس، برقہ، افریقیہ، اسپین، قبرض، طبرستان، آرمینیہ، امرورود، طالقان، فاریاب، افغانستان، خراسان، ترکستان، ایران، آزربائیجان، جوزجان اور ایشیائے کوچک کا ایک وسیع خطہ اور شام وغیرہ ان کے دور میں مفتوح ہوئے امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ تنگنائے قسطنطنیہ تک بڑھتے چلے گئے۔کابل سے مراکش تک کے علاقعے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور حکومت میں شامل تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتے تھے اپنے رشتہ داروں کو اپنے پاس سے اور بیت المال سے مدد کرتے تھے۔ بعض وقت بیت المال سے قرض لے کر بھی رشتہ داروں کی مدد کی ۔کہا کرتے تھے میرے رشتہ دار اتنے زیادہ مال دار نہیں، اس لیے ان کی مدد کرتا ہوں اور یہ صلہ رحمی ہے اور یہ قرآن کے مطابق ہے۔
یہی بات بعض لوگوں کو پسند نہیں تھی اور آخر کار بلوائیوں نے انہیں شہید کر دیا شہادت کے موقع پر چالیس دن تک بردباری ضبط اور تحمل کا اظہار کیا ایک وسیع سلطنت کے حاکم اور جانثاروں کی فوج ہونے کے باوجود خلیفہ راشد حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے چند بلوائیوں کے خلاف خونریزی کی اجازت نہیں دی اور شہادت قبول کر لی۔ قارئین! حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ خلافت کے زمانے میں فرماتے تھے جب میں خلیفہ نہیں بنا تھا تو میں عرب کا سب سے زیادہ اونٹوں بکریوں کا مالک تھا اب خلافت کے دوران میرے پاس ایک اونٹ حج کی سواری کے لیے اور ایک بکری ہے۔یہ ہیں مسلمانوں کے آئیڈئل حکمران ! کیا آج کل کے مسلمانوں حکمرانوں میں کوئی ایسا ہے؟ مسلمان حکمرانوں نے عوام کو لوٹنے کے علاوہ کوئی اور کام کیا ہے اسی لیے پاکستان اور اسلامی دنیا کے عوام مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست اور خلفاء راشدین کے دور کی حکومت کے آرزو مند ہیں۔ آئیے مسلمان ملکوں میں ایسی حکومتوں کے لیے کوشش کریں تاکہ ضروریات زندگی کی فروانی ہو، امن وامان ہو، کرپشن ختم ہو، دہشت گردی ختم ہو، انصاف ہو، عدل کا نظام ہو، انسانیت کی قدر ہو، بیرونی مداخلت ختم ہو تمام شہریوں کے لئے ترقی کے یکساں مواقعے ہوں۔