عریانیت اور جہیز

Niqab

Niqab

جو عریانیت مغربی کلچر سے شروع ہوئی ہے اس کا سایہ اسلامی معاشرے پر بھی پڑنے لگا ہے۔ پوری دنیا اس مغربی کلچر کی لپیٹ میں آگئی ہے۔ عمل کا معاملہ ختم ہو چکا ہے۔ عریانیت اپنے دامن کو پھیلائے جارہی ہے۔ جسم پر کپڑے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ شرم و حیا نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے۔

اسلام میں جسموں کو پردے میں رکھنے کا حکم ہے۔ نا محرموں کی نظر نہ پڑے نقاب اور چادر سے پورے جسم کو ڈھکا جائے۔ ہم کہاں تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کر رہے ہیں اس کا اندازہ لگائیں۔ اسلام مذہب میں جہیز لینا سخت منع ہے۔

اسی لئے تو پیغمبر اسلام نے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اپنی دختر حضرت فاطمہ کو جوجہیز دیا ہے وہ آج تک تاریخ کے اوراق پر سنہرے حرفوں سے تحریر ہے۔، جو آج بھی مسلم معاشرے کے لئے عبرت کا پیغام دے رہی ہے کہ اے اسلام کے ماننے والو! جہیز فاطمی سے سبق حاصل کرو۔ یہ تمہارے لئے نصیحت ہے۔

پیغمبر اسلام کی زوجہ حضرت خدیجہ الکبریٰ دولت لے کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر آئی تھیں۔ وہ جہیز نہیں تھا۔ وہ حضرت خدیجہ الکبریٰ کے کاروبار کی آمدنی تھی۔

Dowry

Dowry

حضرت علی نے اپنی بیٹی جناب زینب کی شادی جناب عبداللہ سے کی ہے لیکن تاریخ میں کہیں جہیز کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اپنے دونوں صاحبزادے حضرت امام حسن علیہ السلام اورحضرت امام حسین علیہ السلام کی شادی کی ہے لیکن جہیز نہیں لیا ہے۔ جناب زہر بانو ایران کے بادشاہ کی بیٹی تھیں اور دوسری زوجہ ام رباب، یہ بھی بہت امیر ترین تھیں۔ اپنی خواہش سے جو ہوا وہ لے کر آئیں۔ جہیز کے نام پر کچھ نہیں مانگا گیا۔

خلفائے راشدین نے بھی جہیزلینے کے لئے منع کیا ہے۔ ہر طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیںکہ جہیز ہمیں تباہی کے دہانے پر لے جا رہا ہے۔آپ غور کریں سوچیں اس گرانی کے دور میں زندگی گزارنا مشکل ہے۔ انسان کس طرح زندگی بسر کر رہا ہے۔

شادی کے تمام انتظامات میں کافی خرچ ہے۔ پھر فرمائشی جہیز کہاں سے دیا جاسکے گا۔ غریبی کی وجہ سے جہیز کی فرمائش سے لڑکیوں کی شادی نہیں ہو پاتی ہے۔ کتنے پھول مرجھا گئے۔ کتنے والدین نے جان گنوا دی۔ اگر لڑکی جہیز لے کر نہیں جاتی ہے تو سسرال والے طعنہ مارتے ہیں۔ زندگی بھر جہیز کے لئے اسے طعنے سننے پڑتے ہیں۔

کہیں انہیں جہیز کی خاطر آگ کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ اسلام میں انسانیت پر بہت روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسلام میں انسانیت ہی سب کچھ ہے۔ لیکن آج مسلم معاشرے سے انسانیت ختم ہو تی جارہی ہے۔

جہیز کا رواج عام ہوتا جارہا ہے۔پورا معاشرہ تباہی کے دہانے پر جا رہا ہے۔ جس کے پاس بہت بڑی رقم ہے وہ جہیز دے کر اپنی بیٹی کی شادی کر دیتا ہے اور جو غریب ہیں وہ کہاں سے دولت لائیں گے۔

ان کی بیٹیوں کا کیا ہوگا۔ کیا وہ کنواری رہ جائیں گی۔ ضرورت ہے کہ ہر کوئی جہیز سے پرہیز کرے اور جہیز لینے اور دینے دونوں پر پابندی لگائے تاکہ ہمارا معاشرہ تباہی سے بچ جائے اور ہم سے دنیا عبرت حاصل کرے اور سب لوگ خوشی سے زندگی بسر کریں۔

M A Tabassum

M A Tabassum

تحریر: ایم اے تبسم (لاہور)
مرکزی صدر،کالمسٹ کونسل آف پاکستان”CCP”
email: matabassum81@gmail.com, 0300-4709102