قوم کی ایک بیٹی

USA

USA

کن لفظوں میں اس سربستہ راز کو بے نقاب کیا جائے کہ خاموشی کے نیچے خوفناک طوفان چھپا ہوتا ہے۔ جس روز امریکہ والے ڈیرہ غازی خان کے ایک ہوٹل سے ایمل کانسی کو اغواء کرکے لے گئے اس روز ایسے لگا جیسے ہماری عزت نفس کسی نے اغواء کر لی۔ حساس اورمحب وطن لوگوں کے اندر سے میں نے ایک چھناکے کے ساتھ بہت کچھ ٹوٹتے دیکھا۔ کچے کے منگن بلوچ کو اس روزمیں نے پہلی بار مغموم حالت میں دیکھا۔ پھر جب ایک امریکی وکیل نے یہ کہا کہ پاکستانی چند سکوں کی خاطر اپنی مائیں بیچ ڈالتے ہیں میں نے اپنے ضمیر کو بے موت مرتے دیکھا۔ ایک روز خبر آئی کہ بگرام کے قید خانے میں قوم کی ایک بیٹی امریکی درندوں کے تاریک زنداں میں بے بس پڑی ہے تو لگا جیسے پوری قوم کے سر سے غیرت کی ردا کوئی چھین کرلے گیا۔

مجھے اپنے وطن کے لبرل، روشن خیال اور امن پسند دانشور یاد آئے جو سوات کی ایک وڈیو پر چیخ پڑے تھے جو مرد امریکی میرنز نے نقلی ڈاڑھی لگا کر ایک عورت امریکی میرین پر درے لگاتے ہوئے بنا ڈالی تھی۔ اس جعلی ویڈیو کو بنیاد بنا کر اسلام اور پاکستان کو نشانے پر رکھ لیا گیا اور 40 لاکھ لوگوں کی جانوں کا خراج وصول کیا گیا۔ مجھے اپنے شہر کا وہ نام نہاد صحافی یاد آتاہے جس نے اس فیک ویڈیو پر پورا شہر سر پر اٹھا لیا تھا۔ یہ اس جیسے ہی صحافی تھے جنہوں نے مختار مائی کو ورلڈ سیلیبریٹی بنا ڈالا تھا۔ اپنی گود میں کتے اٹھا کر تصویریں بنوانے والے غیرت سے عاری ایک حکمران نے ڈالروں کے کھیل میں عافیہ کے تین معصوم بچوں کا بھی سودا کر ڈالا۔

30 مارچ 2003 ء کو قوم کی اس بیٹی کو امریکی درندوں کے حوالے کیا گیا اور ان دروندوں نے اسے افغانستان کے بگرام ایئر بیس کے زندانوں میں مقید کر ڈالا اس قید کے دوران بدترین تشدد اور اذیتوں کی صعوبت اس کا مقدر ہوگئے۔ ونی رڈلی نے ایک پریس کانفرس میں انکشاف کرک یوطن عزیز کے میر جعفر اور میر صادق کے گھنائونے کردار کو ننگا کر ڈالا کہ ”بگرام ایئر بیس کے زندان میں موجود جس قیدی نمبر 650 کی کربناک چیخیں قیامت برپا کئے ہوئے ہیں جگر خراش صدائیں رات کی تاریکی کو چیرتی ہیں وہ عافیہ صدیقی ہے۔

Dr. Aafia Siddiqui

Dr. Aafia Siddiqui

حال چو طرفہ تاریکیوں کا صیدزبوں، یاس انگیز فضائوں میں محبوس حوصلہ شکنی حوادث سے نڈھال دل گرفتگی کے مستقل ڈیرے ہیں۔ پستی اور پسماندگی کا منحوس راج، ذہنی شکست خوردگی اور احساس کمتری کی پختہ و پائیدار عملداری ہے لمحہ، لمحہ بارگراں، زندگی بوجھ اور برسوں کی اداسی ہے ،آنکھیں کھول نہیں سکتے کہ دلدوز منظر کے تصورات ہیولے کی طرح قدو قامت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انکھیں بند نہیں رکھ سکتے کہ ہزیمت زدہ منظر دماغ پھاڑنے کو آتا ہے۔ حساس مسلمان زخم زخم ہوئے جب یہ خبریں آ رہی تھیں کہ عافیہ کو سزا سنا دی گئی ہے۔ بہت دکھ ہوا۔ مگر اس موقع پر افغانستان کے وہ جاہل، اجڈ، گنوار، دہشت گرد شدت سے یادآئے مغرب کی ایک بیٹی ونی ریڈلے جن کی قید میں رہی تو قید کے دوران ان جاہل، اجڈ، گنوار دہشت گردوں نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف نہ دیکھا اور مغرب کی یہ بیٹی جب اپنے معاشرے میں واپس لوٹی تو ان جاہل، اجڈ، گنوار لوگوں کے گن گارہی تھی۔

اسے وہ نیلی آنکھوں والے فرشتہ صفت نوجوان نہیں بھولے جنہوں نے اسے عورت کا وہ تقدس دیا جو چودہ سو سال سے امن اور سلامتی کے مذہب کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ہمارے تاریخ دانوں کویہ تو یادہے کہ حجاج بن یوسف ملت اسلامیہ کا ایک ظالم کردار تھا لیکن تاریخ کے کوڑے دان میں اس کے عظیم کردار کے اوراق پھینکنے والے یہ بھول گئے کہ وہ تڑپ اٹھا تھا۔ ایک مسلمان بیٹی کی پکار پر۔ اس کی وہ تڑپ یاد آتی ہے جس تڑپ کی بدولت اس نے سینکڑوں میل دور اپنے بھتیجے کی سرکردگی میں اسلامی لشکر روانہ کیا تھا۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کی آج مجھے کوئی چنگھاڑ سنائی نہیں دے رہی جو مختار مائی کے لٹنے پر سنائی دی تھی، ملالہ پر جس سے ہمارے کانوں کے پردے پھٹنے لگے۔ ڈیڑھ ارب قوم کی بیٹی مغربی درندوں کے نرغے میں تڑپ رہی ہے۔

ہماری راہ تکتے تکتے اس کی آنکھیں پتھرا گئیں ہیں۔ ظلم سہتے سہتے اور ہماری بے حسی کے بارے میں سوچتے سوچتے وہ اپنے حواس کھو رہی ہے۔ درندے اسے مرنے دیتے ہیں نہ جینے دیتے ہیں وزیر اعظم کے دورہ واشنگٹن کے دوران قصر ِسفید سے حکم نامہ جاری ہوا ہے کہ آئندہ عافیہ صدیقی کا موضوع نہ چھیڑا جائے مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے 18 کروڑ گریبانوں میں ڈاکٹر عافیہ کا ہاتھ ہے اور وہ انہیں جھنجھوڑ رہی ہے مان لو کہ امریکی وکیل نے سچ کہا تھا کن لفظوں میں اس سربستہ راز کو بے نقاب کیا جائے کہ خاموش سطح کے نیچے نہایت خوفناک طوفان چھپا ہوتا ہے۔

M. R. Malik

M. R. Malik

تحریر : ایم آر ملک