امریکی دبائو کب تک؟

Nawaz Sharif, Obama

Nawaz Sharif, Obama

وزیر اعظم نواز شریف کی امریکی صدر سے ملاقات کے چرچے ہو رہے ہیں حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملاقات کے نتائج اچھے نکلیں گے لیکن اپوزیشن سمیت دیگر تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں، پاکستانی عوام ملاقات کو صرف ملاقات ہی کہہ رہے ہیں جس میں نوے منٹ کے اندر میاں نواز شریف کی سنی نہیں گئی بلکہ سنائی گئی۔بے گناہ امریکہ کی جیل میں مقید ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ڈرون حملون کے بارے میں وزیر اعظم کی بات کو صرف امریکا نے سنا اور کہہ دیا کہ ہم نے سن لیا عافیہ کے حوالہ سے مزید بات نہیں ہوگی جبکہ ڈرون حملے امریکہ کی پالیسی ہیں وہ جاری رہیں گے۔

اسکے مقابلے میں امریکی صدر نے نواز شریف کے سامنے مطالبات کی فہرست رکھ دی جس میں انڈیا کی ساتھ امریکی تعلقات و دوستی کے طور پر کنٹرول لائن فائرنگ، ممبئی حملہ کیس اور جماعة الدعوة پر بھی بات کی گئی جس کی خود وزیر اعظم نے میڈیا سے گفتگو میں تائید کی۔ امریکی صدر اوبامہ نے نواز شریف سے ملاقات کے دوران اپنے مفادات سے زیادہ انڈیا کی خواہشات کو سامنے رکھا۔ جماعة الدعوة اور ممبئی حملہ کیس سے متعلق گفتگو کر کے بھارت کی وکالت کی گئی۔ امریکہ افغانستان سے نکلنے سے قبل بھارت کو خطہ کا تھانیدار بنانے کی مذموم منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان کو دبائو میں رکھنے کیلئے گھٹیا ہتھکنڈے اختیار کئے جارہے ہیں۔ ڈرون حملوں، مسئلہ کشمیر اور بھارت و امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف بھرپور آواز بلند کرنے پر جماعةالدعوة کو نواز ‘اوبامہ ملاقات کے دوران زیر بحث لایا گیا۔ امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔ غیور پاکستانی قوم اسے کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔ نواز شریف ڈرون حملوں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور مسئلہ کشمیر پر امریکہ کی طرف سے کوئی مثبت اور امید افزا جواب حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

کسی امریکی ذمہ دار نے اس بار ے میں میڈیا کے سامنے کوئی بات ہی نہیں کی۔ میاں نواز شریف کو صدر اوباما کو باور کرانا چاہیے تھاکہ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے اور گزشتہ دو ماہ سے کنٹرول لائن پر پاکستانی علاقوں میں بلااشتعال گولہ باری اور فائرنگ شروع کر رکھی ہے جبکہ حافظ سعید کو پاکستانی اعلیٰ عدالتوں نے ناکافی ثبوتوں کی بنا پر بری کیا ہے۔ ممبئی حملوں کے بارے خود بھارتی وزارت داخلہ کے عہدیدار نے عدالت میں یہ بیان داخل کیاہے کہ یہ حملے بھارتی حکومت نے پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لیے خود کرائے تھے ۔ صدر اوباما کی طرف سے ڈرون حملوں کو پاکستان کے تحفظ اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ضروری قرار دینا انتہائی مضحکہ خیز اور پاکستانی عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے ۔ امریکہ ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان کی خود مختاری کو تاراج اور بے گناہ پاکستانیوں کا قتل عام کر رہاہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹوں میں اعتراف کیا گیاہے کہ ڈرون حملوں میں 98 فیصد بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں۔

Drone Attack

Drone Attack

امریکہ نے ڈرون حملے بند کرنے کا پاکستانی مطالبہ مسترد کر دیا ہے وزیراعظم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے ٹھوس لائحہ عمل طے کرے۔ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت صرف دعوے ہی نہیں عملی کام کرے پاکستانی قوم اور طالبان ڈرون حملوں کی بندش چاہتے ہیں اس کے بغیر وطن عزیز میں جاری بم دھماکوں کی خوفناک لہر کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ملاقات میں جماعة الدعوة پر پابندیوں کے حوالہ سے امیر جماعة الدعوة پروفیسر حافظ محمد سعید نے ردعمل میں کہا ہے کہ ڈرون حملوں کے خلاف ملک گیر تحریک میں جماعة الدعوة کا کردار نمایاں رہا ہے ۔اس بات کا امریکیوں کو ہم پر سخت غصہ ہے اور انہیں ہمارا یہ کردار برداشت نہیں ہو رہا۔ جماعةالدعوة نے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی اور متنازعہ ڈیموں کی تعمیر کے خلاف بھی بھرپور آواز بلند کی ہے۔

پرویز مشرف کی طرف سے نت نئے آپشنز پیش کرنے سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف کمزور ہوا تواس عرصہ میں بھی ہم نے مظلوم کشمیر یوں کی جدوجہد آزادی کی کھل کر حمایت کی۔ انڈیا سمجھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں اجاگر کرنے اور اس کے مذموم ایجنڈوں کی تکمیل کی راہ میں جماعة الدعوة سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لئے وہ امریکیوں سے ملاقاتیں کر کے انہیں جماعة الدعوة کے خلاف بھڑکاتے ہیں اور اس حوالہ سے پاکستان پر دبائو بڑھانے کے مطالبات کئے جاتے ہیں۔ ڈرون حملوں، بلوچستان میں بھارتی و امریکی مداخلت اور مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے بھرپور آواز بلند کرتے رہیں گے اور اس حوالہ سے کسی قسم کے دبائو کا شکار نہیں ہوں گے۔ نوازشریف کو اپنے گھر کو درست کرنے کی بات امریکہ میں نہیں، اپنی پارلیمنٹ میں کرنی چاہیے تھی۔ پاکستان کی خطے میں جو سٹریٹجک حیثیت ہے،اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکہ سے بہت سی باتیں منوائی جاسکتی تھیں۔ 2014 ء میں امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جس طرح دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مشرف نے امریکہ کو بغیر مطالبے کے بہت سی سہولتیں دے رکھیں تھیں، اب بھی کم و بیش وہی صورتحال ہے۔ ملاقات میں پاکستان کے دو مین ایشو تھے۔

ڈرون حملے اور کشمیر ان کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا مگر امریکہ سنی ان سنی کر رہا ہے۔ امریکی اپنے ایجنڈے کی تکمیل اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں مگر ایسا نہیں ہو گا یہ ان کی بھول ہے۔ امریکہ کو افغانستان میں مار پڑ چکی ہے۔ وہ انڈیا کو اس خطہ کا تاج پہنانا چاہتا ہے جس کے لیے اوباما نے اپنے مفادات سے زیادہ انڈیا کے مفادات کو نواز شریف کے سامنے رکھا۔

Dr. Shakeel Afridi

Dr. Shakeel Afridi

امریکا نے ایک جانب اپنے مطالبات سامنے رکھے ڈاکٹر شکیل افریدی کا رہائی کا مطالبہ کیا تو عافیہ پر مزید بات سے انکار کر دیا۔ڈرون کو پالیسی کہا جبکہ پاکستان ایک خود مختار و آزاد ملک ہے اب امریکہ کے دورے کے بعد وزیر اعظم کو کسی کی منت سماجت نہیں کرنی چاہئے بلکہ اگر ڈرون آتے ہیں تو انہیں گرانا چاہئے کیونکہ ملک کا دفاع بھی حکمرانوں کا فریضہ ہے اگر ڈرون گرتے رہے تو اسے دہشت گردی بھی مزید بڑھے گی۔ نواز شریف اوباما کے آگے
ڈرون حملے بند کرنے کی عاجزانہ درخواست کر کے پاکستان کے عوام کومطمئن نہیں کرسکتے بالخصوص جبکہ اس درخواست سے پہلے ہی امریکہ کی طرف سے اسکا جواب بھی آگیا ہے کہ یہ ڈرون حملے پاکستانیوں کی حفاطت کیلئے کئے جارہے ہیںیہ جواب اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اوباما نے وزیر اعظم نواز شریف کی ڈرون حملے بند کرنے کی درخواست مسترد کردی ہے اور وہ اس کو جاری رکھنے پر مصر ہے ایسی صورتحال میں پاکستان کے حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ ڈرون حملوںکو بند کرانے کیلئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل فوری اختیار کریںاب جبکہ ایمنسٹی انٹر نیشنل کا بیان بھی ان کے حق میں آگیا ہے تو ان کیلئے ڈرون حملوں کے خلاف کوئی موثر اقدامات کرنے مزید آسان ہو گئے ہیں اگر حکمرانوں نے اس میں مزید کسی تساہل کا مظاہرہ کیا تو ملک میں دھشت گردی کے خاتمہ کا انکا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا کیونکہ طالبان سے مذاکرات کی کامیابی کا انحصار بھی ڈرون حملوں کی بندش پر ہے۔

امریکہ کے اپنے مطالبات تو اپنی جگہ لیکن انڈیا کی وکالت اوباما نے کی اور پاکستان کو دبائو میں لانے کی کوشش کی جماعة الدعوة اور حافظ سعید پر پابندیوں کے حوالے سے ملاقات کے پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا رد عمل سامنے آچکا ہے کہ حافظ سعید کے خلاف ٹھوس ثبوت نہیں کاروائی نہیں کریں گے لیکن کیا پاکستان امریکہ کا دبائو برداشت کر سکے گا۔

تحریر: ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472
mumtazawantlg@gmail.com