اسلام آباد (جیوڈیسک) پارلیمانی جماعتوں نے قیام امن کیلئے ایک بار پھر طالبان سے مذاکرات کیلئے حکومت کو غیر مشروط تعاون کی یقین دہانی کرا دی۔ حکومت مذاکرات کیلئے جو چاہے راستہ اختیار کرے، اپوزیشن سوال نہیں اٹھائے گی۔
اسپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت اے پی سی فالو اپ اجلاس میں طے ہوا کہ حکومت مذاکرات کیلئے جو مرضی راستہ استعمال کرے اپوزیشن سوال نہیں اٹھائے گی۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن مذاکرات میں تاخیر بھی برداشت کرنے کو تیار ہے۔ اے پی سی کے فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے ٹائم فریم کا بھی مستقبل میں ذکر نہیں ہو گا۔ مذاکراتی عمل میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ سے بچنے کیلئے حکومت مذاکرات کا چینل یا رابطہ کار کے متعلق بتانے کی بھی پابند نہیں ہو گی۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اجلاس کو تفصیلی بریفنگ دی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ مذاکرات کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ طالبان سے رابطہ ہوا ہے وہ بھی مذاکرات کے حامی ہیں لیکن ابھی تک بات چیت کے مقام کا تعین نہیں کیا گیا۔ پارلیمانی رہنماں نے وزیر داخلہ سے استفسار کیا کہ مذاکرات میں تاخیر کیوں ہوئی جس پر وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ میجر جنرل ثنا اللہ کی شہادت اور چرچ پر حملہ طالبان سے مذاکرات میں تاخیر کا سبب بنے سامنے لاشیں پڑی تھیں۔
مذاکرات کس منہ سے کرتے؟؟۔ انہوں نے بتایا کہ طالبان کے 37 گروپ ہیں، مجموعی طور پر شدت پسندوں کے 50 سے زائد گروپ ہیں ، بیشتر دھڑے حکیم اللہ محسود کی قیادت تسلیم کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے عمران خان کے تلخ بیانات کے متضاد، نرم رویہ اختیار کیا جبکہ میڈیا پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے والے شیخ رشید احمد آئے کھانا کھایا اور چلے گئے۔