عشوہ، غمزہ، ناز، ادا، کیا ہے جو محترم عمران خاں ”کی ” سونامی میں نہیں ہے۔ وہ کبھی کبھی چلمن سے نظارہ مار کے غائب ہو جاتی ہے اور اب تو عرصۂ دراز سے اُس نے چلمن پہ آنا بھی چھوڑ دیا ہے لیکن عاشقانِ سونامی کو نوید ہو کہ اب وہ میک اپ کے بعد اپنی نوک پلک سنوار رہی ہے اور کچھ پتہ نہیں کہ کب اپنی بھرپور حشر سامانیوں کے ساتھ رقیبانِ عمران خاں پر بجلیاں گرانے آن وارد ہو۔
ہمیں سونامی سے توکچھ لینا دینا نہیں لیکن ہم ٹھہرے پاکستانی اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ پاکستانی تھوڑے بہت تماشبین ضرور ہوتے ہیں اِس لیے ہم بھی چاہتے ہیں کہ سونامی اپنی اولین فُرصت میںچھم چھم کرتی باہر آ جائے اور پھر ”دمادم مست قلندر۔ بھٹو مرحوم نے بہت پہلے دمادم مست قلندر کہا اور کر کے دکھایا، یہ الگ بات ہے کہ اِس ”دمادم” میں ایک کی بجائے دو پاکستان معرضِ وجود میں آ گئے اور ہم نے ”اپنے پاکستان ” میں لہک لہک کر گانا شروع کر دیا کہ ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے” لیکن اب ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ اب توبیچاری پیپلز پارٹی اپنے وجود کی فکر میں مبتلاہے اور”میٹھا سچ ”تو یہی ہے کہ اب صرف پارٹی ہی باقی رہ گئی ہے ”پیپلز ” تو ہوا ہو گئے۔ پیپلز پارٹی نے بلاول زرداری کے ذریعے کچھ ہلچل پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن سیاسی نو مولود ، نو وارد اور نوخیز بلاول زرداری کی معصومانہ بڑھکوں نے دمادم مست قلندر کا سا سماں پیدا کرنے کی بجائے اُلٹا اثر دکھایا اور اب پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو جوابدہی مشکل ہو رہی ہے اِس لیے اس تماش بین قوم کی ساری اُمیدیں اب سونامی ہی سے وابستہ ہیں۔
اگر سونامی کی باگ ڈور شیخ رشید احمد کے سپرد کر دی جائے تو مزہ آ جائے۔ افواہ تو یہی تھی کہ تحریکِ انصاف قومی اسمبلی میں سیّد خورشید شاہ کی جگہ شیخ رشید احمد کو قا ئدِ حزبِ اختلاف لانا چاہتی ہے۔ سید خورشید شاہ بطور قائدِ حزبِ اختلاف سجتے تو بہت ہیں لیکن اپنے قد کاٹھ کے لحاظ سے بولتے نہیں۔ دھیمے مزاج کے شاہ صاحب ہمیشہ دھیمے انداز میں ہی گفتگو کرتے ہیں جبکہ شیخ صاحب کا ”کھڑاک” تو کسی نہ کسی نیوز چینل پر ہر روز سنائی دیتا ہے۔ہم تو چاہتے تھے کہ شیخ صاحب قائدِ حزبِ اختلاف بن جائیں تاکہ قومی اسمبلی ہر روز ”کھڑکھڑاتی” رہے لیکن کسی بد باطن نے تحریکی بھائیوں کے کان میں پھونک دیا کہ پارٹی کو اب انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے باہر نکلنا چاہیے اور شیخ صاحب کی ”شیخیاں” چونکہ الیکٹرانک میڈیا تک محدود ہیں اِس لیے اِس ناقص تجویز سے باز رہنے میں ہی عافیت ہے۔شنید ہے کہ اکابرینِ تحریکِ انصاف نے شیخ صاحب کو قائدِ حزبِ اختلاف بنانے سے توبہ کر لی ہے اِس لیے اب ہمیں شیخ صاحب صرف نیوز چینلز پر ہی چیختے چلاتے بلکہ چنگھاڑتے نظر آئیں گے۔
مجھے سونامی کی آمد کا اندازہ محترم شاہ محمود قریشی اورخیبر پختونخواہ کے وزیرِ اعلیٰ محترم پرویز خٹک کے حالیہ بیانات اور الیکشن کمیشن کے بلدیاتی انتخابات کا بگل بجانے سے ہوا اِس لیے میرے قارئین کو ہر گز اِس غلط فہمی میں مبتلاء نہیں ہونا چاہیے کہ میرے پاس بھی کوئی طوطا، مینا، چڑیا، کبوتر یا ”کالمی درویش” ہے۔ ویسے بھی میں نے اگر کبھی کوئی ”مخبر” رکھا تو اِن چھوٹے چھوٹے معصوم پرندوں کی بجائے کسی ہاتھی ،گینڈے کا انتخاب کروں گی تاکہ باقی لکھاریوں پر ”رُعب شُعب” قائم ہو جائے۔
شیر کا انتخاب ہر گز نہیں کروں گی کیونکہ حسد کے مارے لوگ جھٹ سے کہہ دیں گے کہ ”یہ تو نون لیگی ہے اور آجکل تو نواز لیگ کے حامی لکھاری ”ایک ڈھونڈو ، ہزار ملتے ہیں ” اور نواز لیگ کے کٹر مخالفین بھی اپنے قبلے کا رُخ نواز لیگ کی طرف موڑنے کی تگ و دَو میں ہیں اِس لیے مجھے فی الحال نواز لیگی کہلوانے کا کوئی شوق نہیں البتہ یہ وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ جب اپنی ”حرکتوں” کے باعث نواز لیگ حزبِ اختلاف کے بنچوں پر جا بیٹھے گی تب میرا قلم اُس کا بھرپور ساتھ دے گا۔ فی الحال تو قوم کو ”کڑوی گولی” نگلنے کی نصیحت کرنے والوں کو میری کڑوی کسیلی باتیں برداشت کرنا ہونگی۔
PTI Pakistan
شاہ محمود قریشی صاحب فرماتے ہیں کہ تحریکِ انصاف مہنگائی اور بجلی، پٹرول اور گیس کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کر رہی ہے جبکہ پرویز خٹک صاحب نے تو امریکہ کے خلاف ”تقریباََ” اعلانِ جہاد ہی کر دیا ہے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ امریکہ ڈرون حملے بند کر دے، اگر ڈرون حملے بند نہ ہوئے تو ہم نیٹو کنٹینر روک دیں گے۔ یہی بات کپتان صاحب نے بھی اینکر مبشر لقمان کو انٹرویو دیتے ہوئے زور دے کر کہی۔ ایسی جرأتِ رندانہ صرف تحریکِ انصاف کے لوگوں میں ہی پائی جاتی ہے کیونکہ ابھی تک اُنہوں نے ”جلا وطنی” کا مزہ نہیں چکھا۔ میاں نواز شریف صاحب ایسی جرأت کا ”سواد” لے چکے ہیں ۔ہم نے گھاس کھا کر ”شب برات” پر چلانے کے لیے ایٹم بم بنایا لیکن انوکھے لاڈلے میاں نواز شریف صاحب نے امریکی صدر بل کلنٹن کی دھمکیوں کے باوجود اُسے چاغی کے پہاڑوں میں چلا کر مبارک بادیں وصول کرنا شروع کر دیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انکل سام کے پٹھو مشرف نے اُنہیں جلا وطن کر دیا۔
طویل جلا وطنی کاٹ کر جب وہ واپس آئے تو مُسکراتے ہوئے کہا ”لوگ کہتے تھے قدم بڑھاؤ نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔لیکن جب میں نے قدم بڑھایا تو سبھی بھاگ گئے۔ یوں تو محتاط میاں صاحب نے بھی لندن پہنچتے ہی یہ بیان دے دیا ”ڈرون حملے ہماری خود مختاری کے خلاف ہیں جنہیں ہم کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ محض سیاسی بیان ہے۔ وہ تو صرف مودبانہ گزارش ہی کر سکتے ہیں البتہ یہ بھی بڑی بات ہے کہ اُنہوں نے یہ مودبانہ گزارش بھی ایک آزاد اور خودمختار ایٹمی قوت کے وزیرِ اعظم کے طور پر اوباما کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کی۔ پریس بریفنگ میں اوباما کے بعد جب میاں صاحب کی باری آئی تو اُنہوں نے جیب سے ”بوٹی” نکال لی۔ نہیں معلوم کہ اِس ”بوٹی” کا خالق کون تھا لیکن یہ طے ہے کہ یہ بوٹی نواز، اوباما ملاقات سے پہلے تیار کی گئی جسے ”کمرۂ امتحان” میں میاں صاحب نے پڑھ ڈالا۔
میں بوٹی کے خالق کو سلامِ نیاز پیش کرتی ہوں جسے پہلے سے علم تھا کہ بارک اوباما کیا کہیں گے اور جواباََ میاں صاحب نے کیا کہنا ہے۔ خیر بات دوسری طرف نکل گئی، میں عرض کر رہی تھی کہ محترم پرویز خٹک نے جرأتِ رندانہ کا ثبوت دیتے ہوئے اِس ناتوانی میں بھی توانائی سے بھرپور آوازکے ساتھ امریکہ کو دھمکی ”کھڑکا” کر یہ ثابت کر دیا کہ جسم نہیں دل لڑتے ہیں۔اب کوئی رانا ثنا اللہ صاحب سے پوچھے کہ”تیلی پہلوان” کون ہے؟۔ پرویز خٹک یا وہ خود؟۔جب خٹک صاحب کا یہ بیان سامنے آیا تو ہمیں یقین ہو گیا کہ اِس بیان پر وائٹ ہاؤس میں ”تھَر تھَلی” مچ جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ امریکی سفیر ہانپتے کانپتے بارگاہِ خٹک میں حاضر ہو کر معافی کے خواستگار بھی ہوں لیکن امریکی وزارتِ خارجہ کے اڑیل ”ٹٹو” نے معافی مانگنے کی بجائے یہ کہہ دیا کہ ڈرون حملے بند نہیں ہونگے ۔ہمارے نزدیک امریکی وزارتِ خارجہ کے اِس بیان کی کوئی حیثیت نہیں البتہ یہی بات اگراوباما کہے تو جانیں اور اگر اوباما نے بھی وہی کہہ دیا جو محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے تو پھر ۔۔۔ تو پھر بھی نیٹو کنٹینر تو بند نہیں ہونگے کیونکہ پرانی تنخواہ پر کام کرنا ہماری سرشت میں شامل ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ اس معاملے میں تو دما دم مست قلندر کے امکانات معدوم ہیں اِس لیے محترم شاہ محمود قریشی کے دم قدم سے ہی کسی رونق کا امکان ہے یا پھر بلدیاتی انتخابات سے۔ یہ تو پتہ نہیں کہ تحریکِ انصاف احتجاجی تحریک شروع کرتی ہے کہ نہیں لیکن بلدیاتی انتخابات تو طے ہیں جن میں دمادم مست قلندر بھی ہو گا اور سونامی بھی اِدھر اُدھر بھاگتی نظر آئے گی۔ اِس لیے ہم نے ابھی سے آنے والے دنوں کی تیاری شروع کر دی ہے اور جی ہی جی میں خوش ہیں کہ ہمیں اپنے کالموں کا پیٹ بھرنے کے لیے ڈھیروں ڈھیر خوراک میسر ہو گی۔ فی الحال تو ہم اِدھر اُدھر سے خبریں پکڑ کر ہی گزارا کر رہے ہیں۔