وزیر اعظم میاں نواز شریف امریکہ کا کامیاب دورہ کر چکے ہیں۔ انکے وزرا اس دورے کو کامیاب قرار دینے کے لیئے مختلف تاویلیں د ے رہے ہیں اور اس دورے کو کامیاب قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ میاں صاحب کا یہ دورہ ضرور کامیاب ہو سکتا ہے اگر اسکو امداد کے حوالے سے دیکھا جائے مگر میاں صاحب و ہاں امداد نہیں تجارت کی غرض سے گئے تھے اور ”ایڈ نہیں ٹریڈ ” انکا بنیادی نکتہ تھا اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا یہ دورہ بھی پاکستان کے سربراہان کے پہلے دوروں کی طرح ہی ”کامیاب و کامران ”رہا ہے۔
اگر جان کی امان پاؤں تو اس موضوع پر لب کشائی کرنا چاہوں گا اور اختلاف کی جسارت کروں گا کیونکہ ہماری ہمدردیاں اس ملک کے ساتھ ہیں اور اس ملک کے رہنے والے باسیوں کے ساتھ جسکو قوم بہر حال نہیں کہا جا سکتا۔ بہت سے دانشور حضرات کے ساتھ ساتھ میرے جیسا سیاست کا طالبعلم بھی یہ بات سمجھ رہا تھا کہ اس دورے کا سوائے سیر سپاٹے کے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ہاں اتنا ضرور ہوا کہ بات چیت بہر حال شروع ہوئی ہے جو کہ خوش آئند کہی جا سکتی ہے اور کسی نتیجہ کی جانب بڑھنے والا پہلا قدم کہا جا سکتا ہے۔ اس دورہ کا اختتام ہماری توقعات سے بھی بد تر ہوا میں یہ سوچ رہا تھا کہ امریکہ بہادر چونکہ افغانستان سے نکلنے کا سوچ رہا ہے اس لیئے وہ کچھ نہ کچھ کردار ہمیں افغانستان میں دینے پر راضی ہو جائیں گے مگر اس محاذ پر بھی جس بری طرح ہمارے وزیر خارجہ جناب میاں نواز شریف ناکام ہوئے ہیں اسکو بیان نہیں کیا جاسکتا اور اب خارجہ کے نہایت مستعد وزیر کی بہت زیادہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے مگر شاید وزیر خارجہ اگر اچھا آگیا تو اگلی دفعہ وہ وزیر اعظم کے لیے خطرہ ثابت ہو جائے اس ڈر سے کسی مستعد اور قابل آدمی کو اس اہم پوسٹ پر تعینات نہیں کیا جارہا۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو خلاف توقع ایمنسٹی انٹرنیشل نے ایک خاص موقع پر اپنی رپورٹ شائع کر کے نہ صرف ہمارے مؤقف کی تائید کی بلکہ دنیا کے ایک بڑے حصے کو ہمارا ہمنوا بنا دیا۔
Drone Attacks
ہمارے پاس ایک بہت بڑا موقع تھا کہ ہم امریکہ کو ڈرون حملوں سے روک سکتے اور انھیں اس بات پر راضی کر لیتے کہ جتنے بھی خطرناک دہشت گرد یا شدت پسند ہمارے قبائلی علاقوں میں موجود ہیں ہم ان سے خود نبٹ لیں گے لہذا ڈرون حملوں سے اجتناب کیا جائے کیونکہ یہ ڈرون حملے ہمیں مزید اس جنگ سے متاثر کریں گے جو کہ کسی صورت ہماری نہیں تھی مگر ہمارے گلے میں ڈال دی گئی ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اگر بات کی جائے تو اس معاملے میں بھی ہم نہ صرف ناکام ہوئے ہیں بلکہ سبکی بھی ہو رہی ہے لیکن اسکی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہم ہمیشہ بعد میں راگ الاپتے ہیں اگر ڈاکٹر عافیہ کے لیئے عدالتوں میں سزا سے پہلے صحیح کوشش کی جاتی تو بڑی حد تک کامیابی ممکن تھی ۔ میں یہاں امریکیوں کو ایک بات کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکوں گا کہ جس بہترین طریقے سے اس نے ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر ہمارے کمزور نظام کا سہارا لیا وہ نہایت ہی قابل ستائش ہے نہ کوئی جنگ کی اور نہ ہی کوئی ایسی حرکت کی جس سے اس کی جہاں میں سبکی ہوتی انھوں نے الٹا ہمیں رسوا کیا اور دنیا کو واقعی یہ دکھا دیا کہ ہم اپنے آپکو اپنے لوگوں کے خون کو کس آسانی کے ساتھ بیچ دیتے ہیں اور ہم لوگوں کا خون کتنا ارزاں ہے ۔ اگر ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے کو دیکھا جائے تو بھی مجھے لگتا ہے کہ وہ شکیل آفریدی کو چھڑانے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ اس نے ایک ایسے آدمی تک پہنچنے میں امریکہ کی مدد کی جو پوری دنیا کا مطلوب ترین آدمی تھا اور بد قسمتی سے جتنا زیادہ ہم ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اپنے پاس رکھیں گے اتنا ہی زیادہ دنیا ہمیں اس بات کا طعنہ دے گی کہ ہم ان لوگوں کو ختم نہیں کرنا چاہتے جنکو دنیا دہشت گرد سمجھتی ہے تو لگتا ایسا ہی ہے کہ جلد یا بدیر ڈاکٹر شکیل آفریدی بھی امریکہ کی فضاؤں میں ہماری غیرت اور نام نہاد خود داری کا مذاق اڑا رہا ہوگا کیونکہ ہم نے ڈالر بھی تو لینے ہیں اپنے معاملات کو حل کر نے کے لیئے اور ڈالروں کے بغیر ہم کیسے بلا ضرورت کے ترقیاتی کام کروائیں گے جس سے ہمارے لوگ اگلے ہر آنے والے الیکشن میں بیوقوف بن جائیں۔
کشکول توڑنے کا وعدہ بھی معشوقہ کے وعدے کی طرح ہی ثابت ہوا ۔ رہی سہی کسر حافظ سعید اور ممبئی حملوں پر آنے والے مطالبات نے پوری کر دی میاں صاحب کا امریکہ میں کھڑے ہو کر یہ کہنا کہ ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہوگا ان معاملات کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو وہاں میاں صاحب کو پیش آئے ہیں۔ حضور والا یہ سب ہونا ہی تھا کیونکہ ایک فون کال پر آپکو لیٹنا ہی پڑتا ہے جب آپکے ملک میں جمہوری رویے سرے سے موجود ہی نہ ہوں اور آپکے ملک میں سیاست صرف ان لوگوں کے لیئے ہوگی جو کہ کروڑوں خرچ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اپنے لوگوں کو یہ کہنا چاہوں گا کہ جس طرح ڈسپرین سے کینسر کا علاج ممکن نہیں بالکل اسی طرح صرف سڑکیں اور پل بننے سے کوئی قوم خوشحال نہیں ہو جاتی جب تک بنیادی تبدیلیاں اس نظام میں نہیں لائی جائیں گی تب تک مکمل خود مختاری اور خود داری کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہئے۔
ہماری اتنی سبکی صرف اس وجہ سے ہوتی ہے کہ ہمارے وسائل اس قابل نہیں کہ ہم ان ممالک سے پنگا لے سکیں جن سے ہم چندہ اور بھیک لیتے ہیں اگر اپنے آپکو خود دار بنانا ہے کہ تو قوم سے لے کر حکمرانوں تک کو دلیرانہ فیصلہ کرنا ہونگے۔ اجتماعیت کو ذاتیات پر فوقیت دینا ہوگی چیزوں کی نزاکت کو سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا ہر شخص کو آگے آنا ہوگا اپنے زوربازو پر بھروسہ کرنا ہو گا۔ حکمرانوں کو اپنا پیسہ ملک میں لا کر ابتدا کرنا ہو گی آپ ٹیکس دینا ہوگا اور پھر اس تیس لاکھ طبقے کو جو کہ ٹیکس چوری کر رہا ہے یا ٹیکس نہیں دیتا کیونکہ اسے پتہ ہے کہ اسکا ٹیکس صحیح جگہ استعمال نہیں ہوگا اسکو ٹیکس کی ادئیگی پر قائل کرنا ہوگا۔ اپنا انصاف کا نظام بہتر کرنا ہوگا تاکہ کوئی مجرم سزا سے نہ بچ سکے چاہے وہ مذہب کے نام پر جرم کر رہا ہو یا ریاست سے وفاداری کے نام پر، قانون کی پاسداری کے بغیر دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ کرپشن کو کم سے کم کرنا ہوگا ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں روزانہ 6 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے اور اگر ہم آدھی کرپشن بھی روک لیں تو میرے خیال میں ہمارا بجٹ خسارہ پورا ہو سکتا ہے جسکی وجہ سے ہمیں بیرونی امداد اور نئے نوٹ چھاپنے کی ضرورت پٹرتی ہے جس سے ہماری خودی ختم ہوتی ہے اور بے حسی جنم لیتی ہے۔
دنیا میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جنکی پیروی کی جاسکتی ہے ۔لیکن میرے خیال میں ہمارے لوگوں میں اتنی قابلیت اور اہلیت ہے کہ ہم خود دنیا میں ایک مثال بن سکتے ہیں ہم دنیا کو ایک ایسا نظام دے سکتے ہیں جس میں نہ صرف سرمایہ دار آزاد ہوگا بلکہ ایک مزدور بھی اپنے آپکو اتنا ہی محفوظ سمجھے گا۔ جاگیر دار یہ سوچے گا کہ یہ زمین اسکے پاس خدا کی امانت ہے اور کسان خدا کو جواب دینے کے ڈر سے بھرپور محنت کریگا۔ عوم باشعور ہونگے اپنے مرضی اور قسمت کے فیصلے خود کریں گے نہ کہ انکے فیصلے دھاندلی کر کے چرائے جائیں گے جس ملک میں ماں اور بیٹا ایک وقت میں امتحان دے رہے ہوں۔ ماں شاگرد اور بیٹا استاد ہو ،ماں بیٹے سے زیادہ نمبر حاصل کرلے تو سوچیں وہ قوم کیا کچھ نہیں کر سکتی۔
ضرورت ہے تو صرف اپنے آپکو پہچاننے کی اس خودی کی جس کی بات اقبال نے کی تھی اور اس مقصد کو پانے کی خوہش جس کے لیئے قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی بیماری تک کو پوشیدہ رکھا ۔جسکے لیئے لاکھوں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر اس سرزمین میں داخل ہوئے۔ ضرورت ہے تو کامیابی اور ناکامی کو سمجھنے کی کامیاب ہونے کی نہ کہ زبردستی ”کامیاب” کہلوانے کی اور حقیقی کامیابی کامیاب ہونا ہے۔
Zahid Mehmood
تحریر : زاہد محمود فون نمبر : 03329515963 zahidmuskurahat1122@gmail.com