یہاں سب بکتا ہے

Traffic Police

Traffic Police

وقت، مشاہدہ اور تجربہ انسان کے خیالات، احساسات اور نظریات کو تبدیل کر دیتا ہے اسکے ساتھ ساتھ انسان کے اندر پیدا ہونے والی محرومیاں، مایوسیاں اور نفرتیں بھی بہت اہم ہوتی ہیں اور جب تک انسان زندہ رہتا ہے وہ انہیں دوستوں میں یا تنہائی میں یاد ضرور کرتا ہے وہی محرومیاں، مایوسیاں آگے چل کر انسان کی زندگی کا تعین کرتی ہیں مثال کے طور پر مجھے بچپن میں ڈاکٹر بننے کا شوق تھا جب سکول جانا شروع کیا تو راستے میں کھڑے ہوئے سفید شرٹ اور نیلی پینٹ میں ملبوس ٹریفک کنٹرول کرنے والے پولیس اہلکار کو دیکھتا جو ہاتھ کے مختلف اشاروں سے ٹریفک کو کنٹرول کررہا ہوتا تھا مجھے سفید شرٹ اور نیلی پینٹ والے پولیس ملازمین بہت اچھے لگنے لگے اور انکے اس عوامی خدمت کے رویہ کو دیکھ مجھے بھی ٹریفک پولیس میں بھرتی ہونے کا شوق پیدا ہو گیا۔

سکول کے بعد جب کالج کا دور شروع ہوا ٹریفک پولیس کے اصل کرتوت سامنے آنا شروع ہو گئے وہی ٹریفک والے جو کسی دور میں مجھے بہت اچھے لگتے تھے اور انکی خدمات کو دیکھ کر میں نے بھی ٹریفک پولیس کی نوکری کرنے کا فیصلہ کیا تھا جب یہ دیکھا کہ کسی نہ کسی نکر پر ٹریفک پولیس کا اہلکار لوگوں سے پیسے بٹورنے میں مصروف ہے خاص کر لاری اڈے کے آس پاس یا پھر جی ٹی روڈ پر اکثر ٹریفک والے کا کسی نہ کسی ٹرک والے کو روک کر اسکے ساتھ ہی اگلی سیٹ پر بیٹھ جانا اور پھر جو طے پاتا وہ لیکر سب کے سامنے ہی نیچے اتر جانااسکے ساتھ ساتھ چھوٹی ویگنوں اور بڑی بسو ں کی سکرین پر لگے ہوئے گول گول سٹیکر جن پر 1سے 12تک کے ہندسے لکھے ہوتے تھے جو چیخ چیخ کر ٹریفک پولیس کے سیاہ کرتوت بیان کررہے ہوتے تھے یہ سٹیکر ہر ماہ ایسی گاڑیوں کو لگایا جاتا تھا جو اپنی منتھلی وقت پر ادا کرکے پھر پوار مہینہ چالان سے بچے رہتے تھے۔

ٹریفک پولیس کا اصلی چہرہ سامنے آنے پر ٹریفک پولیس کے متعلق میرے خیالات تبدیل ہو گئے پھر کالج کی سطح پر مختلف سیاسی جماعتوں کی یونین کے ساتھ منسلک ہونے کے بارے میں سوچا اور پھر جب طلبہ لیڈر کی لوٹ مار سیاستدانوں اور مقامی پولیس کے ہاتھوں انکو کھلونا بنتے دیکھا تو اس سے بھی دل اچاٹ ہوگیا پھر اسکے بعد شعبہ صحافت میں قدم رکھا تو یہاں پر آکر جو راز آنکھ سے پوشیدہ تھے وہ بھی آشکار ہو گئے سیاستدانوں کی عوامی خدمت، ملا کی چیخ وپکار، ڈاکٹر کی مسیحائی، پولیس کی فرض شناسی اور فقیر کی صدا سب فراڈ نکلی وقت کے دھارے پر چلتے چلتے ہر روز ایک نئی سوچ نے جنم لیا جو پہلے نظریات تھے وہ اب یکسر تبدیل ہوگئے اور اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں پر ہر شخص ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہا ہے ہر سرکاری ملازم دل کھول کر لوٹ رہا ہے۔

Corruption

Corruption

ہر سیاستدان ایک دوسرے کی لوٹ مار کو تحفظ دینے کے لیے شکلیں بدل بدل کر باریاں لے رہا ہے جب کوئی لوٹ مار کرکے اپنا پیٹ بھر لیتا ہے تو پھر وہ حاجی ثناء اللہ بن کر لوگوں کو درس وتدریس اور وعظ دینا شروع کر دیتا ہے پہلے اسکے لیے رشوت، جھوٹ، فراڈ، کرپشن سب کچھ جائز تھا مگر جب اسکا پیٹ لوٹ مار سے بھر گیا تو پھر اس نے رشوت حرام قرار دیدی مساجد بنا کر حاجی بن گیا اور بھوکوں کے لیے لنگر کا انتظام کرکے اس میں بھی ٹیکس چوری کا پہلو ڈھونڈ لیا اب ہر کوئی اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہے کوئی کسی بھیس میں تو کوئی کسی رنگ میں مقصد سب کا مال بنانا ہی ہے، انصاف سرعام بک رہا ہے۔

قانون پیسے والے کے گھر کی لونڈی بن چکا ہے، سفارش اور رشوت نے محنتی اور ایماندار کو چور بنا دیا آپ اپنے گھروں میں آنے والے ایک گوالے سے لیکر کام کرنے والوں تک کو دیکھ لیں کوئی بھی ایمانداری سے اپنا فرض پورا نہیں کر رہا دودھ دینے والا اس میں ناجانے کیا کیا چیزیں ملا کر دودھ مہیا کرتا ہے ایک تجربہ کار دود والا ایک دن باتوں ہی باتوں میں بتاگیا کہ جب کبھی ہمارے دودھ سے بھرے ہوئے کنٹینر خراب ہوجاتے ہیں تو ہم اس میں بال صاف کرنے والا پائوڈر ایک دو کیمیکل کے ساتھ ملا کر خوب ملتے ہیں تو وہی دودھ ایسا خالص بن جاتا ہے۔

پینے ولا یہی سمجھتا ہے کہ یہ خالص اور تازہ ہے آپ کسی دوکان سے پکوڑے، سموسے یا کوئی تلی ہوئی چیز بھی لیکر نہیں کھا سکتے کیونکہ وہ جس تیل میں پکائی جاتی ہیں وہ جانوروں کی ہڈیوں کو پگلا کر بنایا ہوا تیل ہوتا ہے جس میں ذبح کی ہوئی مرغیوں کی آنتیں اور پر وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں آپ کسی ہوٹل سے قیمہ نہیں کھا سکتے کیونکہ یہ قیمہ جانوروں کی آنتوں اور اوجڑی سے تیار کیا جاتا ہے اور تو اور جو چیز ہر روز گھروں میں عام استعمال ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر پسی ہوئی سرخ مرچ اور ہلدی وغیرہ آپ کو بازار سے وہ بھی خالص نہیں ملے گی یہ سب ملاوٹ والی اشیاء ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے کیونکہ جہاں پر اب اپنوں کے رویے خالص نہ رہے ہوں وہاں پر بازاری لوگوں اور بازاری اشیاء میں خالص پن کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی یہاں سب بکتا ہے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
فون نمبر : 03466444144