وہ آیا دھاڑا اور بھاگ گیا۔ یہ ہیں جناب علامہ طاہر القادری صاحب ہاتھ میں گنڈاسا نما آئین لائے جس کو انھوں نے ہر سو لہریا۔ بقول اُنکے اسکے مندرجات میں بحث کی بھی کوئی گنجائش نہیں اسکو لاگو ہونا چاہیے۔ اُنکی پہلی فلم کا مکمل ٹریلر بھی نہ چلا تھا کہ پُری طرح فلاپ ہو گئی۔ خبر گرم ہے کہ ڈاکٹر صاحب دوبارہ جلوہ افروز ہونے والے ہیں۔ پہلی فلم کا سیکوئل قریباً تیار ہو چکا ہے۔ انتظار ہے کہ اس بار قوم اُنکو منہ دکھائی میں کیا نزرانہ پیش کرتی ہے یا پہلے کی طرح چلتا کرتی ہے۔
پاکستان کو انہوں نے 21 ویں صدی کا سومنات بنا لیا ہے۔ سُنا ہے کہ اس بار عمران خان صاحب بھی اُنکے ہم رکاب ہوں گے۔ خان صاحب پہلے لانگ مارچ میں اپنی عدم شرکت پر افسوس کر کے رضا مندی کا عندیہ دے چکے ہیں۔ لڑائی جیتنے کا بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ اپنی طاقت پر بھروسہ کرنے کی بجائے دشمن کی قوت کا اندازہ لگانا ضروری ہوتا ہے۔
عمران خان صاحب کو سوشل میڈیا لے ڈوبا دونوں لیڈروں کا مشن ایک ہی ہے مگر سمتیں مختلف، اگر طاہر القادری صاحب کو حکومتیں گرانے کی جلدی ہوتی ہے تو خان صاحب کو اقتدار سنبھالنے کی فکر امریکی اس خطے میں شطرنج کی نئی بساط بچھا چکے ہیں۔
اس بار تازہ اُنکی گیم کا اصل مہرہ عمران خان ہیں۔ اس بار اسلام آباد پانی پت کی یاد تازہ کر دے گا یاد رہے کہ پانی پت کا میدان فیصلہ کن لڑائیوں کے لیے مشہور رہا ہے اور بہت جلد اسلام آباد نئی یلغار کا سمانا کرنے والا ہے۔
کالم کے پہلے حصے میں جو بحث کی گئی وہ تو ایک پس منظر تھا اصل منظر تو حکیم اللہ مسعود کی ہلاکت کے بعد سامنے آ چکا ہے۔ حکیم اللہ مسعود کی پاکستانی حلقے بشمول حکومت اور فوج قابل قبول شخصیت نہیں رہیں جس طرح یہ سارا واقعہ رونما ہوا ہے بظاہر امریکی حکومت اور فوج قابل قبول شخصیت نہیں رہی جس طرح یہ سارا واقعہ رونما ہوا امریکی ہٹ دھرمی کا شناخستہ ہے مگر درحقیقت اس میں پاکستانی حکومت آئی ایس آئی اور فوج سب ملوث ہیں۔
Hakimullah Mehsud
پہلی بات تو یہ کہ حکیم اللہ مسعود جسے ضدی اور جابر شخص کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو ہی نہیں سکتا تھا اسکا اندازہ تمام فریقین بشمول طالبان رہنماؤں کو تھا۔ ڈرون حملے سے صرف ایک دن پہلے نواز شریف صاحب نے اعلان کیا تھا کہ طالبان سے مذاکرات شروع ہو چکے ہیں اور جلد وفد جانے والا ہے۔ نواز حکومت جن مسائل سے دوچار ہیں وہ ان مذاکرات کی ناکامی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اسکے لئے ضروری تھا کہ طالبان قیادت کسی معقول اور قابل قبول رہنما کے ہاتھ میں ہو۔
طالبان قیادت کو بھی اس بات کا اندازہ ہو چکا ہے کہ مذاکرات میں اُنکے لئے بہترین آپشن ہے۔ عمران اسی ایشو پر حکومت مخالف تحریک شروع کرنے والے ہیں اس غبارے سے ہوا اس وقت نکل سکتی ہے اگر حکومت ان مذاکرات کو کامیاب بنا دے مولانا فضل الرحمٰن حکومتی آشیر باد سے اس ٹاسک پر دن رات کام کر رہے ہیں۔ درونِ خانہ اُنکو ملنے والی وزارتیں اور مراعاتیں اُن کی کامیابی سے مشروط کر دی گئی ہیں۔
پیپلزپارٹی کا اس منظر نامے میں نہ کوئی کردار ہے اور نہ ہی بنے گا۔ وہ اپوزیشن ہی کرتے ہیں گے۔ وزیر اعظم کا ایک اور جرأت مندانہ اقدام یہ ہے کہ وہ عشروں سے جاری ایم کیو ایم کی بلیک میلنگ سیاست کا شکار نہیں ہوتے اور انہیں صرف گورنری کے جھولے میں ہی جھومنا پڑے گا اور یہ عشروں سے بگڑا ہوا سیاسی کلچر پاکستان کو کافی نقصان پہنچا چکا ہے۔
کراچی کے بگڑے ہوئے حالات دہشت گردی کی شدید ترین لہر اور ملک میں جرائم کا اضافہ ان سب پر قابو پانا اشد ضروری ہے۔ حکومت یقیناً ان مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے اور نواز شریف صاحب ایک ٹھوس اور باعمل سیاست دان ہیں۔
Nawaz Sharif
پاکستان میں معاشی انقالاب اس وقت تک برپا نہیں ہا سکتا جب تک ان مسائل بالخصوص طالبان کے مسئلے کو کوئی حل نہ نکالا جائے۔ کامیاب مذاکرات کیلئے فریقین کے درمیان ایک آئیڈیل اسٹیج سجنے جا رہی ہے۔ میاں صاحب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کوئی بیرونی دباؤ قبول نہیں کرتے اور اس اہم مسئلے میں بھی وہ کوئی ڈکیئشن نہیں لیں گے۔ ہمسایہ ملک چین اور ایران کے ساتھ شروع کئے گئے منصوبے تمام ملکی حالات کی بہتری کی جانب ہیں پاکستان کو جلد از جلد امریکہ اور امریکہ نوازوں سے پیچھا چھڑانا ہو گا۔ یہ مذاکرات ایک بہترین آگاز ہیں جو ہیں اُس منزل تک لے جائیں گے جس کا خواب ہر پاکستانی دیکھتا ہے اور یہی ہے نیو پاکستانی آرڈر اپنے اپنوں کے ساتھ اور صرف اپنوں کیلئے۔