ایک کمرشل مارکیٹ میں اپنے آرڈر کیلیئے منتظر بیٹھا ہوا تھا۔ نگاہیں اخبار پر ٹکی ہوئی تھیں۔ احساسات پر ایسے ہی جذبات کا بسیرا تھا جو ہر ذی شعور کو آج کل کے حالات کو جان کر ڈستے ہیں۔ اخبار کیا تھا مفلسی، غربت، قتل و غارت گری، بدعنوانی اور لاقانونیت کے کھلے عام ہونے والے واقعات کا عکاس تھا۔ ابھی میرا ذہن ان واقعات کے کرب میں جکٹرا ہوا تھا۔ اسی لمحے اسکی آواز بلند ہونے لگی۔ اسکی صدا میں درد بھی تھااور بات میں وزن بھی۔ میں بھی دوسرے بہت سارے افراد کی طرح اسے غور سے سننے لگا۔ وہ دہائی دے رہا تھا کہ اس پر ظلم کی انتہا ہوئی ہے۔ اسکی آزادی سلب کر لی گئی۔ یہ انسانی حقوق پر سفاکانہ وار ہے۔ ماجرہ یہ تھا کہ الیکشن 2013ء کی ووٹر لسٹ میں اسکا نام ہی نہیں ہے۔ آس پاس کے افراد بھی اس کیساتھ ہونے والے واقعے پر کھل کر اظہار افسوس کر رہے تھے۔ ایک آزاد محب وطن شہری کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنا سراسر زیادتی ہے۔
اسکی محرومی کا احساس میرے وجود میں کرنٹ کی طرح سرائیت کرنے لگا۔ محرومی کیا ہوتی ہے۔ذہن کے پروں پر مغموم احساسات کی ارتعاش پیدا ہونے لگی۔ زندگی میں پہلی بار میرے خیالات میں گلگت بلتستان کی 60 سالہ محرومی کے مناظر گردش کرنے لگے۔ ایک ایسا خطہ جو وطن وعزیز سے بے پناہ محبت کے باوجود محرومی کا شکار ہے۔ اپنی قسمت کے فیصلے کرنے سے قاصر ہے۔ حکمرانوں کے چناو کا حق انہیں حاصل نہیں۔
گلگت بلتستان کے آئینی حقوق سے محرومی کی داستان بہت سنسنی خیز بھی ہے ، فکر انگیز اور دل خراش بھی ہے۔ اس کی وجوہات بہت ساری ہیں۔ شومہ قسمت غربت، پسماندگی، شعور و آگاہی کا فقدان اور ناہل،بدعنوان اور غدار حکمرانوں کا چناو ہے۔ جس طرح پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کا فائدہ چند اشخاص نے ذاتی مفاد کی صورت اٹھا کر ملک کو مسائل کے دلدل میں دھکیلا ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان کی جغرافیائی اور تاریخی اہمیت کو نااہل سیاستدان نما کاروباری طبقے نے سبوتاژ کیا ہے۔ محض مالی فوائد اور اقتدار کی ہوس کی خاطر لاکھوں انسانوں کو سبز باغ دکھاتے رہے ۔ ان میں سے بعض نے اپنے کاروبار اور بنک بیلنس کو عوام کی خواہشات اور امنگوں پر ترجیح دی ہے۔ بعض ان پڑھ اور سیاسی شعور سے عاری افراد اپنے آقاوں کی غلامی نبھا رہے ہیں۔ کہیں دام و زر کیلئے پارٹیاں بدل بدل کر لوگوں کو غیر حقیقی اعلانات اور پیکجز کی صورت اندھیرے میں رکھا گیا تو کہیں پارٹی سے وفاداری کے پر نام پر لوٹ مار کی منڈیاں سجائی گئی ہیں۔ غلامانہ سوچ انسانوں کو محرومیوں سے نجات نہیں دلا سکتی۔ اپنے آقاوں سے نمک حلالی کی خاطر خطے کی ترجیحات کو پس پشت ڈالا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ دس پندرہ سالوںمیں ہی برائے نام اصلاحات اور آئینی پیکجز کے نام پر لوگوں کے جذبات سے کھیلا جاتا رہا اور نتیجہ ندارت۔ اسے ڈکیتی کا Modern Module کہا جا سکتا ہے۔
محرومی کی اس داستان کے پیچھے قربانی اور ایثار کا جذبہ بھی کارفرما ضرور ہے۔ وہ یہ کہ کشمیر کی آزادی تک گلگت بلتستان کو بے آئین رکھا جائے۔ گلگت بلتستان کی یہ صدا رہی ہے۔ یہ ایک مستحسن جذبہ ہے۔مگر محض نیک خواہشات کے بل بوتے پر لامتناہی عرصے تک انسانوں کو مادر دطن سے دور رکھنا دانشمندی بھی نہیں ہوگی اور منصفانہ قدم بھی۔یہ تو ایسی بات ہوئی کہ ایک جوان دوشیزہ کو کوسوں دور مقیم ان دیکھے مجاز خدا کے نام انتظار کی سولی پر چڑھا دیا جائے۔شوق وفاداری اور ذوق ایثار میں اس کے بالوں پر پہلے چاندی اتر آئے پھر اس کی ہڈیاں تک گھل جائے پر عہدے دفا بر نہ آئے۔ستم بالائے ستم ! جب یہ آشکار ہو جائے کہ وہ تو پہلے ہی اپنی ازدواجی زندگی خوش و خرم گزار رہاہے جبکہ دوسری طرف خوش فہمی ہی سلسلہ انتظار کو طوالت فراہم کر رہی تھی۔فطرت انسانی کا تقاضا ہے یا گردش دوراںسوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا اب بھی آزاد اور مقبوضہ کشمیر کی گلی کوچوں میں کشمیر بنے کا پاکستان کی صدائیں اسی طرح زور آور سنائی دئتی ہیں۔کیا ایسا تو نہیں کہ دلوں میں آزاد ریاست کے سپنے پل رہے ہیں۔
بعید نہیں کہ انڈین میڈیا کی جھوٹی چکا چوند اور چکنی چپڑی باتوں کا سحر آزادی کی تحر یکوں میں جمود پیدا کر دے اور گلگت بلتستان کا خطہ بے آئین مدتوں پڑا رہے۔ ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو اکیسوی صدی کے اس دور میں جہاں جانوروں کے حقوق مقدم ہو چکے ہیں وہاں کسی قوم کو 60سالوں سے محض ایک خواہش اور خیال کے بل بوتے پر ایک ایسے ملک کے آئین اور ووٹ کے حق سے محروم رکھنا سر ا سر زیادتی ہوگی جس میں شمولیت کیلئے انہوں نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان سے الحاق انکے لئے سب سے بڑی سعادت ہے۔
المیہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان کا تعلیم یافتہ طبقہ اسوقت اس بحث میں الجھا ہوا ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے یا نہیں۔ یہ گفتگو نہ صرف غیر ضروری تضادات کو جنم دیتی ہے بلکہ مسائل کی اصل تصویر کو دھندلا دیتی ہے۔ اس موضوع گفتگو کا تعلق گلگت بلتستان کے گھمبیر اور پیچیدہ مسائل سے بالکل بھی نہیں ۔ چاہے وہ محرومیوں اور پسماندگی کی پکار ہو یا سیاسی اور آئینی حقوق کی للکار۔ بحث کے دونوں پہلوون کی میری نظر میںخاص ووقعت نہیں۔ اس لئے میں ایک مختصر مگر غیر جانبدارانہ تجزیہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہونگا۔ جو لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے۔ سوال یہ جنم لیتا ہے کہ گزشتہ 60برسوں میں جن کشمیری قیادست کیساتھ زبردستی کا رشتہ استوار کرنا چاہتے ہیں اس نے مسائل میں گھرے اس خطے کیلئے کیا کیا ہے۔ تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے تو بات عیاں ہوتی ہے کہ گلگت بلتستان اور کشمیر کا کوئی سیاسی اور انتظامی الحاق نہیں رہا ہے۔ ماسوائے کہ دونوں کسی دو ر میں ڈوگرہ راج کے زیر عتاب رہے۔ اس طرح تو پاکستان اور انڈیا بھی انگریز سامراج کے زیر تسلط رہے تھے ۔ تو کیا انہیں بھی ایک ہی خطہ سمجھا جائے۔پس یہ دلیل دونوں حصوں کی شناخت کو باہم ضم کرنے کیلئے کافی نہیں۔ اگر گلگت بلتستان کشمیر ہی کا حصہ ہوتا تو یہاںبھی SSR( اسٹیٹ سبجکٹ رول) لاگو ہوتا۔ یوں بیرونی عناصر کے اثر نفوذ، لاقانونیت اور شرپسندی کے مضر اثرات سے یہ خطہ محفوظ رہتا۔
Gilgit-Baltistan
یاد رہے کہ یکم نومبر 1947ء کو یہ خطہ آزاد ہوا۔ 1970 میں ذولفقار علی بھٹو نے ایف سی آر قانون کا خاتمہ کر لیا تھا۔ سہی معنوں میں گلگت بلتستان اس وقت سیاسی اور سماجی مسائل کی آماجگاہ بن گیا جب ضیاء الحق نے اسے E-zoneقرار دیکر نہ تتیر نہ بٹیر کی صورتحال سے دوچار کیا۔ دوسری طرف ان صاحبان کیلئے عرض ہے جو یہ رٹ لگائے بیٹھے ہیں کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ہے۔ یہاں صوبے کی طرز کی حکومت قائم ہے۔ حقیقت یہ ہے جو پارٹی وفاق میں منتخب ہو جاتی ہے اسی کی ایک کٹ پتلی حکومت قائم ہو جاتی ہے۔ جو ریموٹ کنٹرول پر کام کرتی ہے۔ ماضی کا مشا ہدہ ہے کہ قانون سازی تو دور کی بات میرٹ پر کوئی چپراسی تک بھرتی نہیں ہوا۔غیر تعلیم یافتہ اور غیر موزوں افراد نے اسمبلی تک رسائی حاصل کی اور رشوت ستانی کو ہوا دی گئی۔ اپنے ذاتی مادی مفادات کی خاطر لوگوں کی خواہشات اور امنگوںکو نظر انداز کیا گیا۔ اعلیٰ ایوانوں کی زینت وہ افراد بنے جو یا تو بہت نااہل اور نا عاقبت اندیش تھے یا دولت اور مال و زر کے پجاری ہیں۔
جہاں تک گلگت بلتستان کے عام شہریوں کی بات کی جائے تو وہ اپنے مستقبل سے نگاہیں موڑ کر تصورات کی دنیا میں مگن ہیں۔ انہوں نے اپنی امیدیں ملک کی بڑ ی بڑی سیاسی پارٹیوں سے جوڑا ہوا ہے۔ ان کی حیثیت اس عبد اللہ سے بدتر ہے جو بیگانے کی شادی میں دیوانہ ہے۔ عبد اللہ کا اگرچہ بیگانے کی شادی سے براہ راست تعلق نہ سہی مگر وہ شادی کی تقریبات و لوازمات سے لطف اندوز ضرور ہوتا ہے۔ وہ شادی کی تقریبات میں شامل حال بھی ہوتا اور نان و نفقے کا مزہ بھی لیتا ہے مگر گلگت بلتستان کے عوام بھی ملک کی بڑی جماعتوں کیلئے مرمٹ رہے ہیں۔ کوئی تیر کے حق میں گلے پھاڑ رہا ہے اور کوئی شیر کی حمایت میں بھنگڑے ڈال رہا ہے۔ کسی نے بلے کو سینے سے لگایا ہوا ہے تو کوئی پتنگ کی ڈور سے لٹکا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان جماعتوں کی فی الحال اس خطے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔چونکہ اس خطے کی تقدیر کا فیصلہ کشمیر کی آزادی سے منسلک ہے اور کشمیر کی آزادی پر کوئی بریک تھرو کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
اگرچہ ماضی میں پی پی پی کی طرف سے چند اقدامات دیکھنے کو ملے مگر ان کا فائندہ کم اور نقصانات زیاد ہوئے۔ جب کہ ن لیگ اور دوسری جماعتوں کی سرد مہری کی کوئی حد نہیں۔ 23 اگست 2007ء کو مشرف حکومت کی جانب سے GB Reforms Package کا اعلان ہوا۔یہ محض ایک تصوراتی لفا ظی اعلانات کا مجموعہ تھا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسکی قلعی کھل گئی اور اب یہ ماضی کا ایک قصہ بن چکا ہے۔ 2009ء میں زراداری حکومت نے Self Goverence Order کے نام پر ایک پیکیج کا اعلان کیا اس کے چار بنیادی نقات ہیں۔ آزاد کشمیر طرز کی حکومت کا قیام۔ ٢۔ ایک آزاد خود مختار منتخب حکومت۔ ٣۔ منسٹریوں کا قیام ٤۔ بجٹ میں اضافہ۔ بڑے وثوق سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان میں کوئی ایک بھی ایسی شق نہیںہے جو گلگت بلتستان کے عوام کی خواہشات سے مماثلت رکھتی ہواور جسے موجودہ حکومت نے نافذ العمل بنانے کی سعی کی ہو۔ دراصل اس پیکیج کے ذریعے نہ صرف اختلافات کو ہوا دی گئی بلکہ غلامانہ ذہنیت کے چند کاروباری لوگوں کو عنان حکومت عطا کرکے خطے کو بد امنی، کرپشن، لاقانونیت کا مسکن بنا دیا ہے۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پیکج کیا تھا سفید جھوٹ کا پلندہ تھا۔ اس وقت بھی گلگت بلتستان کی حکومت مسائل سے بیگانہ ہو کر بندر بانٹ میں مست و مگن ہیں ۔تاریخ کی بدترین کرپشن اپنے عروج پر ہے۔ تعلیم سے لیکر صحت جیسے اہم شعبے تباہی و بربادی کے دہانے پر ہیں۔
ہوش مندی کا تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان کی قیادت اصولوں کی سودہ بازی اور ذاتی مفادات کی خریدو فروخت کو بالا طاق رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کی محروم اور غیور عوام کی خوہشات اور مسائل کو ازبر کر لے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ اس خطے کو پاکستان کا پانچواں آئینی صوبہ بنا کر نہ صرف خطے کی وفاداری کا صلہ دیا جائے بلکہ یہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو مزید موثر بنائیگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام دانشمندانہ، تعلیم یافتہ اور اہل افراد کو قیادت کی داغ بیل سونپ دیں جن میں اتنی استعداد ہو کہ وہ ہر فورم پر گلگت بلتستان کے عوام کی موثر انداز میں ترجمانی کر سکے۔