واشنگٹن (جیوڈیسک) سابق سفیر حسین حقانی کا اپنی کتاب ‘Magnificent Delusions’ میں کہنا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے 2009ء میں پیشکش کی تھی کہ ”اگر پاکستان لشکر طیبہ اور طالبان جیسے عسکریت پسند گروپوں کی امداد بند کر دے تو امریکہ مسئلہ کشمیر پر بھارت کو مذاکرات کیلئے آمادہ کر سکتا ہے تاہم پاکستان نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ یہ پیشکش صدر اوباما نے سابق صدر آصف زرداری کے نام ایک خفیہ خط میں کی تھی جو ان کے اس وقت کی قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) جیمز جون نے ذاتی طور پر آصف زرداری کو دیا تھا۔ خط میں امریکی صدر اوباما نے پاکستان سے کہا تھا کہ وہ القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، لشکر طیبہ ،حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کو شکست دینے کیلئے پاکستان کیساتھ تعاون کرے۔
حسین حقانی نے کتاب میں لکھا ہے کہ صدر اوباما نے خط میں پاکستان کو طویل المدت سٹریٹجک پارٹنر بننے کی پیش کش بھی کی۔ صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امریکا خطے کے دیگر ممالک پر بھی مسائل کے حل کیلئے دباؤ ڈالے گا۔ ایک جگہ حسین حقانی نےلکھا ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی ذاتی طور پر ہمیشہ سویلین سے متفق رہے ہیں لیکن فوج بحیثیت ادارہ قومی سلامتی کے نام پر شہریوں کے بحث مباحثے کے حق کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
حسین حقانی کے مطابق ڈرون حملوں پر نہ تو سی آئی اے اور نہ ہی پاکستانی خفیہ ادارے عوام کو تفیصلات بتانےکو تیار ہیں۔ حسین حقانی نے ایک جگہ لکھا ہے اسلام اور قومی نظرئیے سے جڑے پاکستانیوں اور دنیا کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔