29 اکتوبر 2013، اخبارات نے آئی ایس پی آر کے ذرائع سے خبر دی کہ شمالی وزیرستان میں میرن شاہ میں فوجی چوکی پر شدت پسندوں، یعنی طالبان کا حملہ، ہماری الرٹ فورسز نے ناکام بنا دیا اور ٩ دہشت گرد (طالبان) ہلاک کر دئے ہیں پاک فوج کی کامیابی کی بڑی خبر تھی ….روز نامہ جنگ نے این این آئی کے حوالہ سے یہ خبر بھی دی کہ کالعدم تحریک طالبان راہنما نے ایک بار پھر حکومت سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کی کامیابی کے لئے حکومت کو امریکی دباؤ سے نکلنا ہوگا۔
اب مذاکرات شروع ہیں یہ علم نہیں کہ حکومت امریکی دباؤ سے نکل گئی ہے یا….! ہر خبر میں طالبان کے ساتھ کالعدم کا لاحقہ ہوتا ہے ،جس کے معنی بے کار غیر موثر یامعدوم، وغیرہ کے ہیں سوچئے کہ کیا طالبان غیر موثر،یا معدوم ہیں اگر ایسا ہے تو پھر فوج پر طالبان کے حملے … طالبان غیر موثر کالعدم ہیں یا اُن کے نزدیک حکومت پاکستان کالعدم یا وزیرستان میں غیر موثر ہے ، زمینی حقائق کی روشنی میں تو حکومت پاکستان ہی وزیرستان (جنوبی اور شمالی)ایک ہی ہے یہ تو انگریز نے سیاسی بندوبست کے لئے اسے شمالی اور جنوبی میں تقسیم کیا وہاں اب حکومت پاکستان کی رٹ نہیں کیونکہ طالبان اعلانیہ آئین پاکستان نہیں مانتے خبروں سے یہ واضح ہے کہ طالبان حکومت کو واضح پیغام دے رہے ہیں۔
جب حکومت نے تحریک طالبان کو تسلیم کر لیا ہے تویہ کالعدم کا لاحقہ بے سود ہے میرن شاہ میں فوجی چوکی پر حملہ براہ راست پاکستان پر حملہ جسے فوج نے پسپا ہی نہیں کیا بلکہ ٩ طالبان بھی مارے ہیں اور یہ ہماری فوج کی ایک دن کی بڑی کامیابی جسے فوج کے محکہ تعلقات عامہ کے ادارے نے اخبارات کو اطلاع فراہم کی ،مگر دوسرے دن جندولہ ٹانک شاہراہ پر دہشت گردوں کی طرف سے لگائی بارودی سرنگ کے د ھماکے سے پانچ فوجی شہید اور چار شدید زخمی جن کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے حساب برابر ….اِس کا مطلب واضح ہے کہ طالبان فوج کے ساتھ حالت جنگ میں،یہ ہرگز دہشت گرد نہیںبلکہ باقائدہ ایک ایجنڈے پر پاکستان سے بر سرپیکار ہیںاُنکا ایجنڈا پہلے پاکستان کو فتح کرنا ہے اور پھر….!!آج تک یہی کہہ کر بات گول کر دی جاتی ہے کہ یہ دہشت گرد ہیں مگر اس سوال کا جواب آج تک سامنے نہیں آیا کہ جدید قسم کا اسلحہ وافر تعداد میں کن زرائع سے پہنچتا ،آسمان سے تو نہیں برستا ….. حکومت پاکستان نے طالبان کی حثیت کو تسلیم کرلیا ہے اب امن کے لئے کالعد م تحریک طالبان سے مذاکرات کرنے شروع مگر تاحال ایجنڈا سامنے نہیں آیا کہ طالبان کی کیا ڈیمانڈ …! اور حکومت کی کیا ترجیحات جب عوام کے منتخب نمائندے طالبان کمانڈروں کے ساتھ ایک میز پر بیٹھیں گے تو پھر ان کو دہشت کہنا غلط اور ابہام پیدا کرنا، کہ یہ ہر گز دہشت گرد نہیں،بیشک پوری دنیا انہیں دہشت گرد انتہا یا شدت پسند کہے اگر تو شدت پسند ،انتہا پسند،یا دہشت گرد ہیں تو پھر اُن سے مذکرات کا کوئی جواز نہیں۔
Drone Attacks
بھارت سے بات چیت ہو امریکیوں سے یہی کہا جاتا برابری کی سطح پر اور اب مٹھی بھر دہشت گردوں کے ساتھ حکومت اپنے مینڈیٹ کو نیچے لائے گی یا دہشت گردوں کا مینڈیٹ اوپر لایا جائے گا …. یہ ٢نومبر کو سرکاری وفد وقت اور مقام طے کرنے جا رہا تھا ،کہ امیر تحریک طالبان اپنے چند جاںبازوں سمیت ڈرون حملے میں جاں بحق ہو گئے اور مذاکرات فی الوقت ملتوی ہوگئے ہیں … فوجی جوان تو اِسی لئے ہوتے ہیں ماریں یا مریں، بقول وزیر آعظم ٨ہزار سے زائد فوجی مارے جا چکے وہ تو ٹھیک مگر جو ٤٥ ہزار سے زائد سویلین شہری بے وقت و جرم مارے گئے کس جرم کی سزا دی گئی اُن کا خون کس کھاتے میں ،کون زمہ دار، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا جو قابل غور کہ امریکا ڈرون حملوں میں معصوم افراد کی ہلاکت کی اطلاعات کی تحقیقات کرے کہ ڈرون حملے ماورائے عدالت قتل یا پھر جنگی جرائم کے زمرے مین آتے ہیں۔
سابق چیف آف جنرل سٹاف لفٹیننٹ جنرل (ر)شاہد عزیز نے دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ،یہ سابق آرمی چیف تھے جنہوں نے پاکستان میں ڈرون اپریشن کی اجازت دی یہ ایک سنگین جرم ہے کہ سابق آرمی چیف کے خلاف ماورائے عدالت قتل کی کاروائی ہونی چاہئے ، کیا خوب استدلال ہے یعنی ٥٠ ہزار سے زائد پاکستانی شہریوںاور فوجیوں کے قتل کس زمرے میں آتے ہیں ،اور قاتلوں سے مذاکرات…. ، کراچی کے نشتر پارک میں مجلس وحدت المسلمین کے تحت منعقد کی گئی عظمت ولائت کانفرنس میں مرکزی سکٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا طالبان سے مذاکرات آئین کے خلاف ہیں ہم مسترد کرتے ہیں دہشت گردوں کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال کیا جائے …جن لوگوں کے پیارے دہشت گردی کا نشانہ بنے وہ کسی قیمت پر بھی مذاکرات کی حمائت نہیںکریں گے اور آج حکیم اللہ محسود اپنے اللہ کی خوشنودی حاصل کرتے ہوئے جنت میں داخل ہو گئے جہاںحوروں نے استقبال کیا،مگر اِس ڈرون حملے کا شدید ردعمل ہو رہا ہے شدید مخالفت کی جارہی، چیئر مین تحریک انصاف نے آخری تڑی لگادی ،وہ اکتوبر ٢٠٠٩ میں آرمی کے قلب پر حملہ کرنے والے تھے ، ایک وقت وہ بھی تھا جب حکیم اللہ محسود نے جنوبی وزیرستان میں ٣٠٠ فوجی یرغمال بنائے اور بدلے میں اپنے ٢٥ دہشت گردوں کو رہا کرایا ، عام عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دہشت گرد فوج کے ساتھ گوریلا جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں وہ پاکستانی آئین کو تسلیم نہیں کرتے پھر اُن دشمنوں سے امن یا صلح یا مذاکرات کس بنیاد پر کیا جواز اور کیوں؟ پاکستان ہی کیا پوری دنیا کا امن طے و بالا ہو رہا ہے باہر تو کیا ملک کے اندر ہی ایسی قوتیں ہیں جو جنگجوؤں کے خلاف موثر کاروائی کی راہ میں رکاوٹ ہیں جو درپردہ اُنہیں توانائی مہیا کر رہے ہیں اِس میں فوج اور حکومت کی کمزوری واضح نظر آتی ہے ،ڈرون حملوں سے عوام کی اتنی ہلاکتیں نہیں ہوئیں جتنی خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے ہوئی ہیں ،اپنے اقتدار کے لئے کسی حکومت نے بھی ریاست شمالی وزیرستان کی طرف رُخ نہیں کیا جبکہ وہاں طالبان ایٹم بم کی فیکٹریاں .. .! سینٹ میں وزارت دفاع نے اپنے تحریری جواب میں ایوان کو بتایا ،٢٠٠٨ سے اب تک ٣١٧ ڈرون حملے ہوئے جن میں ٢١٦٠ دہشت گرد مارے گئے۔
جبکہ ٦٧ عام شہری جاں بحق ہوئے ٢٠١٢ء سے اب تک دو سال میں ڈرون حملوں میں کوئی عام شہری جاں بحق نہیں ہوأ جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلق ہے امریکی صدر نے اقوام متحدہ کے فلور پر کہا کہ صرف وہاں ڈرون حملے جاری رکھیں گے جہاں دہشت گردوں کو پکڑنا مشکل ہے اور یہ ہماری عسکری قیادت کے علم میں ہے ،امریکی کانگرس میں خارجہ امور کی کمیٹی کے ایک رکن ایلن گیریسن نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا پاکستان چاہے تو کل ہی یہ حملے بند ہوسکتے ہیں۔
پاکستانی ایئر فورس کافی طاقتور ہے وہ جب چاہے اپنی فضائی حدود پر پابندی لگا سکتی ہے…” مگر یہی مشکل ہے میں نے کئی مرتبہ لکھا ، حکومت چاہے تو ایک دن میں امن قائم ہوسکتا ہے مگر کولیشن فنڈز کے ڈالر ….کچھ اور بھی مجبوری ہو سکتی ہے جو امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔