بغداد (جیوڈیسک) عراقی قانون سازوں نے تقریبا ایک ہفتے تک انتخابی قوانین، انتخای نظام اور حلقہ بندیوں سے متعلقہ سوالات پر بحث کی اور اس کے بعد نئے انتخابات کا فیصلہ کیا۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم نورالمالکی کے بارے میں عام تاثر ہے کہ ان کی حکومت کے دوران کرپشن اور بد انتظامی بڑھی ہے۔ حال ہی میں ان پر امریکی سینیٹروں کے ایک گروپ نے بھی فرقہ واریت اور آمریت کا الزام لگایا ہے۔
اس تناظر میں عراق کے نائب صدر خدیار الحوزی نے باضابطہ طور پر نئے عام انتخابات کے لیے ایک صدارتی فرمان جاری کرتے ہوئے نئے انتخابت کی تاریخ کا اعلان کیا ہے۔ یہ انتخابات مارچ 2010 سے جاری سیاسی خلفشار اور کئی مہینوں پر پھیلی تشدد کی نئی لہر کے بعد پہلے انتخابات ہوں گے۔
اب تک سنی شیعہ فرقہ لڑائی کے باعث ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں اور 2008 سے لیکر اس لڑائی میں کمی کے بجائے شدت آ رہی ہے جبکہ دوسری جانب حکومت امن قائم کرنے کے ساتھ ساتھ پانی و بجلی ایسی بنیادی سہولیات کی عوام کو فراہمی میں بھی ناکام ہے۔ اس دوران عراقی پارلیمنٹ بھی بے اثر ہے اور اس نے پورے سال کے دوران عوام کو درپیش مسائل کے حوالے سے کوئی کردار ادا کیا ہے نہ قانون سازی کی ہے۔