حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا جو عمل شروع ہونے والاتھا، وہ اپنے آغاز سے پہلے ہی رُک گیا ہے۔ ان مذاکرات سے پہلے جو خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا وہ درست ثابت ہوا۔ جب بھی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات یا رابطوں کا کوئی سلسلہ شروع ہوتا ہے، ڈرون کسی اہم طالبان کمانڈر کو نشانہ بنا کر پورے عمل کو سبوتاژ کر دیتا ہے۔
طالبان کی طرف سے اب تک ملنے والے اشاروں اور حکومتی ارادوں سے ایسا لگتا تھا کہ اِس بار امن مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں، مگر ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ایک بار پھر پاکستان، طالبان مذاکرات پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ پاکستان کی امن کوششوں پر پہلا ڈرون حملہ 18جون 2004ء کو کیا گیا جب جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملہ کرکے امن معاہدہ کرنے والے طالبان کمانڈر نیک محمد کو نشانہ بنایا گیا۔ 2009ء میں ایک مرتبہ پھر مذاکرات کا ڈول ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ اس مرتبہ ڈرون حملہ کرکے بیت اللہ محسود کو مار دیا گیا جس کے بعد قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں اور پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آ گئی۔ 2013ء میں طالبان کمانڈر ولی الرحمان نے حکومت کی جانب سے مذاکرات شروع کرنے پر مثبت ردعمل ظاہر کیا لیکن جس دن پاکستان میں اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل ہو رہا تھا ،اُسی روز ولی الرحمان بھی ڈرون کا نشانہ بن گیا۔
اب ایک مرتبہ پھر پاکستانی حکومت اور کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی اور وزیرستان ڈرون حملوں سے گونجنے لگا۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ طالبان لیڈر شپ کو نشانہ بنانے اور مذاکرات روکنے کے لیے ہی ڈرون حملے ہوتے ہیں ،بلکہ یہ حملے اس وقت بھی ہوتے ہیں جب ڈرون حملوں کے خلاف رائے عامہ ہموار ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر عمران خان کے کامیاب وزیرستان مارچ کے اگلے ہی روز ملالہ پر حملے کا ڈرامہ رچایا گیا تاکہ پوری دنیا کا دھیان اس کامیاب مارچ سے ہٹ جائے اور اب جبکہ امریکی پارلیمنٹ میں ڈرون سے متاثرہ بچی نبیلہ کی بات سنی گئی تو حکیم اللہ محسود کو مار دیا گیا تاکہ یہ تاثر عام رہے کہ ہمارے ڈرون صرف دہشت گردوں کو ہی مارتے ہیں اور اسی بہانے پاکستان کے طالبان سے مذاکرات بھی نہ ہو سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنی ہاری ہوئی جنگ اب پاکستان میں جیتنا چاہتا ہے۔ وہ افغانستان سے مکمل انخلاء سے قبل افغان طالبان کو تو مذاکرات پر آمادہ کرتا ہے مگر پاکستانی طالبان کے حکومت سے مذاکرات سبوتاژ کر دیتا ہے۔ درحقیقت امریکہ پاکستان میں طالبان سے مذاکرات کا حامی ہی نہیں ہے، کیونکہ اگر مذاکرات ہوتے ہیں اور کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تو پھر یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی کہ طالبان کی صفوں میں ایسے کون سے عناصر موجود ہیں جو غیر ملکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔
سادہ لفظوں میں یہ پاکستان کے خلاف ایک بہت بڑی گہری سازش ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بہت پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات کی کامیابی کے بعد اصلی اور جعلی طالبان کی حقیقت کا پتہ چل جائے گا۔ ماضی میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کی ہر چھوٹی یا بڑی واردات کی ذمہ داری طالبان قبول کرتے آئے ہیں یا پھر طالبان کا نام استعمال کیا جاتا رہا۔ اس وقت پاکستان میں طالبان کے تیس سے زائد دھڑے ہیں جن میں سے اکثریتی دھڑے مذاکرات کے حق میں ہیں مگر چند دھڑے جنہیں غیر ملکی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے وہ مذاکرات میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ یہی دھڑے جب پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کر کے ذمہ داری قبول کرتے ہیں تو نام طالبان کا ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح وہ طالبان بھی بدنام ہو جاتے ہیں جو پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اب کی بار حکومت اور طالبان جیسے ہی مذاکرات پر آمادہ ہوئے ساتھ ہی طالبان نے بہت سی وارداتوں سے لاتعلقی بھی ظاہر کر دی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی تمام کارروائی میں سارے طالبان ملوث نہیں بلکہ طالبان کے روپ میں بیرونی طاقتوں کے ایجنٹ بھی ملوث ہیں۔
Hakimullah Mehsud
حکیم اللہ محسود کی ہلاکت امریکیوں کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی ضرور ہے، کیونکہ ٹائم اسکوائر بم حملے کی ناکام سازش کے علاوہ خوست میں حملہ کرکے سات سی آئی اے کارندوں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری اسی گروپ نے قبول کی تھی لیکن نیک محمد، بیت اللہ محسود، ولی الرحمان اور پھر حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملے کے ٹائم فریم سے لگتا یہی ہے کہ جو بھی طالبان لیڈر جب تک پاکستان کی مخالفت کرتا ہے اُس وقت تک امریکہ اُسے اپنا دشمن سمجھتے ہوئے بھی کچھ نہیں کہتا اور جیسے ہی وہ مذاکرات پر آمادہ ہوتا ہے یا پھر پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے تو ساتھ ہی ڈرون حملے کا نشانہ بھی بن جاتا ہے۔ امریکا پاک آرمی کو طالبان سے لڑوا کر پاکستان کے حالات شام جیسے کرنا چاہتا ہے، اس لیے وہ پاکستان میں کبھی امن نہیں ہونے دے گا، کیونکہ کمزور فوج ہی امریکہ کے مفاد میں ہے۔
حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد اب تنظیم نیا امیر بنانے جا رہی ہے اور جب تک نئے امیر کے نام پر اتفاق رائے نہیں ہوتا تب تک کیلئے عصمت اللہ شاہین کو عبوری سربراہ بنا دیا گیا ہے۔ عصمت اللہ شاہین کے تقرر سے پہلے یہ خبریں آئیں کہ بیت اللہ محسود کے قریبی ساتھی خان سید عرف سجنا کو تحریک طالبان پاکستان کا نیا سربراہ منتخب کرلیا گیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ افغان صوبے نورستان میں روپوش پاکستانی طالبان نے اس فیصلے کی مخالفت کردی ہے۔خان سید کا شمار مذاکرات کے حامی کمانڈروں میں ہوتا ہے شاید اسی وجہ سے پاکستان مخالف دھڑے انہیں بطورِ سربراہ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور یہ بھی خدشہ ہے کہ مولوی فضل اللہ، قاری شکیل، قاری ضیاء الرحمٰن اور عمر خالد میں سے کسی ایک کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے تو پھر حکومت اور طالبان کے درمیان ایک نئی محاذ آرائی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا، کیونکہ مذکورہ چاروں کمانڈر نہ صرف حکومت سے مذاکرات کے سخت مخالف ہیں، بلکہ پاکستان میں کی جانے والی مختلف کارروائیوں میں براہ راست ملوث بھی ہیں۔
اگر ان چاروں میں سے کوئی ایک سربراہ بنتا ہے تو پھر یہ بھی قوی امکان ہے کہ حکومت سے معاہدے میں منسلک اور شوریٰ مراکبہ میں شامل حقانی نیٹ ورک، حافظ گل بہادر اور مولوی نذیر گروپ انہیں طالبان سربراہ کے طور پر قبول نہ کریں۔ بلاشبہ حکیم اللہ محسود بھی پاکستان کے سخت مخالف سمجھے جاتے تھے مگر بعد میں وہ مذاکرات پر آمادہ ہو ہی گئے ۔ اب بھی یقیناً پاکستان دشمن عناصر اس کوشش میں ہوں گے کہ ٹی ٹی پی کا سربراہ کوئی ایسا شخص بنے جو پاکستان اور مذاکرات مخالف نظریات رکھتا ہو۔ بہرحال ٹی ٹی پی کا سربراہ جو بھی بنتا ہے پاکستان کو پہلے سے ہی یہ طے کرنا ہوگا کہ اس کی آئندہ حکمت عملی کیا ہوگی۔ بلاشبہ امن ایک خوش آئند بات ہے اور اگر پرامن جدوجہد و مذاکرات سے دیرپا امن آ سکتا ہے تو ہمیں مذاکرات سے انکار نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان کی اکثریتی سیاسی جماعتوں کی طرح طالبان کی اکثریت بھی مذاکرات چاہتی ہے۔
اگر طالبان سے دوبارہ مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے تو یقینا یہ مذاکرات نہایت پیچیدہ اور صبر آزما ہوں گے، کیونکہ فریقین میں بہت سی بدگمانیاں پائی جاتی ہیں۔ اس وقت جو حالات سامنے آ رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں ہے اور اس میں داخلی ہی نہیں بیرونی قوتیں بھی ملوث ہیں۔ اس لیے حکومت کا کوئی بھی فیصلہ انتہائی دانشمندانہ ہونا چاہئے، کیونکہ جوش و جذبات میں کیے گئے فیصلے پاکستان کے لیے ہی خسارہ ثابت ہوں گے۔