بنگلہ دیش کی تسلیمہ نسرین کو لیں اُس نے کتاب لکھی جو اسلامی دنیا میں متنازعہ ترین کتاب کہلائی کتاب میں اُس اسلام دشمن عورت نے لکھا کہ اسلام میں مرد چار شادیاں کر سکتا ہے عورت کو بھی حق حاصل ہو کہ وہ چار مرد رکھے، یہ تحریر سراسر اِسلامائزیشن کی نفی تھی، اِسلامی عقائد پر زک تھی، معاشرتی بگاڑ کا سبب تھی، مغربی دنیا میں اس کتاب کی مانگ اتنی بڑھی کہ اس کے سینکڑوںایڈیشن نایاب ہو گئے دنیا بھر کا اسلامی مذہبی مائینڈ ایک آواز بن گیا سراپا احتجاج مذہبی عنصر نے بھانپ لیا کہ اسلامی دنیا کی ایک باسی، ایک روشن خیال کہلوانے والی اِسلام دشمن عورت اِسلام دشمن این جی اوز کے ہاتھوں یرغمال ہو کر جھوٹی شہرت کی خاطر ایسا کر رہی ہے احتجاج نے تحریک کی شکل اختیار کی تو احتجاجی ریلے کے سامنے بند باندھنا مشکل ہو گیا۔
تسلیمہ نسرین کو نظر بند اور کتاب کو بین کرنا پڑا بنگلہ دیش کی حکومت کے اس اقدام پر مغربی دنیا نے تحریر و تقریر کی آزادی کے نام پر واویلہ شروع کر دیا اسلامی دنیا کے اسلامی مائینڈ کو ٹارچر کرنے کیلئے مغربی ممالک میں” سیمینارز”شروع ہو گئے جس میں اسلام دشمن این جی اوز پیش پیش تھیں مقررین نے سٹیجوں پر تسلیمہ نسرین کی تعریف و توصیف میں زمین و آسماں کے قلابے ملا دیئے یہ آواز دبی تو ایک ایسی عورت سامنے آئی اسلام سے جس کا دور کابھی واسطہ نہیں تھا اس نے اپنی شناخت کو اُجاگر کرنے کیلئے اسلامی نام کا لیبل استعمال کیا یہ اِسریٰ نعمانی تھی جس کے وال سٹریٹ جرنل کے مقتول صحافی ڈینیئل پرل سے جسمانی مراسم تھے اس نے اسلام میں عورت کی امامت کا مسئلہ اُٹھایا اور کہا کہ اسلام میں عورت کی امامت جائز ہے اسریٰ نے آخر امامت کرا ڈالی اس کی پشت پر یہودی دنیا تھی، اسلام دشمن این جی اوز تھیں اس کی معیت میں باجماعت کھڑی ہونے والی عیسائی عورتیں تھیں جنہوں نے اسلامی لباس زیب تن کر رکھا تھا۔
پھر مختار مائی سامنے آئی عدالت عالیہ کا مبنی بر حق فیصلہ سامنے آیا تو مغربی میڈیا سی این این، بی بی سی ،اسلام دشمن این جی اوز نے عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر مختار مائی کے کیس کو خوب اُچھالا آخر میں ملالہ کا چرچا ہوا جس کے پاس اتنا شعور نہیں کہ وہ کتاب لکھ سکے مغربی میڈیا برسوں اُس کی ذہنی پرورش کرتا رہا اسلام دشمن این جی اوز اُسکی پشت پر تھیں، لکھتا کوئی اور تحریریں ملالہ کے نام سے چھپتیں ان واقعات کا پس منظر کھوجیں مغربی دنیا کا میڈیا جہاد کو دہشت گردی اور مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے رہا تھا مغرب کے اس موء قف کیخلاف اسلامی ریاستوں میں مذہبی جذبات کی آگ احتجاج کی شکل میں بھڑکی تو تسلیمہ نسرین سامنے آگئی۔
عراق کی ابو غُریب جیل میں مظالم کی داستانوں نے عروج پکڑا مذہبی بھائیوں پر مظالم کی داستانوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے کلیجے چھلنی کر ڈالے احتجاج ہونے لگا اسریٰ نعمانی نے عورت کی امامت کا فتنہ جگا دیا جزیرہ گوانتانا موبے میں ڈیڑھ ارب مسلمان قوم کی الہامی کتاب کو کتوں کے منہ میں دیا جا رہا تھا مقدس اوراق پھاڑ پھاڑ کر گٹروں میں پھینکے جا رہے تھے مسلم جذبات سلگے۔
I Am Malala
مختار مائی کیس کا واویلہ شروع ہو گیا مظلومیت کا ڈھول پیٹا جانے لگا وہی کچھ آج ہو رہا ہے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیخلاف بننے والی غلیظ فلم کے خلاف جب احتجاج کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا تو مغرب والے ملالہ یوسف زئی کو سامنے لے آئے جس کے الفاظ ہیں کہ ”اوبامہ میرا رول ماڈل ہے ” Iam Malala کے نا م سے مغرب نے کتاب چھپوائی اور مارکیٹ میں پھیلا دی اور جو غلاظت مغربی اذہان کی اختراع تھی وہ ملالہ کے نام سے منسب کر کے اس کتاب میں ڈال دی گئی نام نہاد مغربی میڈیا کو زخمی ملالہ تو یاد آگئی مگر عراق کے وہ چھ لاکھ بچے یاد نہ آئے جن کی مائیں جھولی پسارے عالمی عدالت انصاف کی توجہ مانگ رہی ہیں عالمی ادارہء ِ انصاف سے انصاف مانگتی ہیں جن کے معصوموں کو ناکردہ گناہوں میں بارود کا ڈھیر بنا دیا گیا۔
وطن عزیز کے نام نہاد دانشورو ! عافیہ صدیقی اس لیئے دہشت گرد ہے کہ امریکی مقاصد کیلئے استعمال نہیں ہوئی وہ محض اس لیئے مظلوم نہ بن سکی کہ مغربی میڈیا اسے دہشت گرد قرار دے رہا تھا اور ملالہ اس لیئے مظلوم ہے کہ ا یک یہودی فلم میکر ایڈم ایلائیک جو سوات میں ملالہ کے خاندان کے ساتھ رہ رہا تھا اس کی ڈاکو منٹری فلم بناکر عالمی میڈیا پر چلا دی جس میں وہ اپنے والد کیساتھ پاکستان میں امریکی سفیر ،پاکستان کیلئے امریکی نمائندہ خصوصی امریکی وزیر خارجہ اور اعلیٰ فوجی افسران سے خفیہ ملاقاتیں کرکے در خواست کرتی ہے کہ سوات میں فوجی آپریشن کو یقینی بنایا جائے تا کہ وہاں سے طالبان کا صفایا کیا جا سکے نیو یارک ٹائمز کی تیار کردہ اس ڈاکو منٹری کا دورانیہ 32منٹ ہے امریکہ نے ملالہ کے واقعہ سے کئی طرح کے مفاد حاصل کیئے ایک یہ کہ ایک نہتی لڑکی پر حملہ کا واویلہ کرکے پاکستان کو دہشت گرد ریاست ثابت کرکے عالمی دنیا میں اسے تنہا کیا جاسکے اوردوسرا مفاد یہ کہ ڈرون حملوں کیخلاف ہمارا مقدمہ عالمی توجہ حاصل کر چکا تھا اور تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان ڈرون حملوں کیخلاف جو کارواں لیکر چلے وہ ان حملوں کے خلاف بطور احتجاج ایک عظیم لانگ مارچ تھا جس کی لمبائی کا تسلسل 36کلومیٹر تھا اور اس 36کلومیٹر لمبے جلوس میں عالمی میڈیا کے تین سو افراد بھی موجود تھے جنہیں عمران خان یہ حقائق دکھانے جارہے تھے کہ امریکہ ان ڈرون حملوں کی آڑ میں بے گناہ انسانیت کا خون بہا رہا ہے اس لانگ مارچ کو بھی عالمی سطح پر پذیرائی ملی مگر عین وقت پر ملالہ کا کیس کھڑا کرکے ان لوگوں کو جن پر ڈرون گرائے جا رہے تھے دہشت گرد ثابت کر کے عالمی ہمدردی حاصل کر لی گئی اور آخری مفاد جو سب سے اہم ہے وہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیخلاف بننے والی غلیظ فلم پر مسلم دنیا خصوصاً پاکستان میں احتجاج کی جو لہر رکنے میں نہیں آرہی تھی اس کا قلع قمع کردیا جائے۔
مذہبی عنصر جو اس احتجاج کا ہراول تھا کو بدنام کرکے عوام میں اُس کیخلاف نفر ت کو عروج پر پہنچا دیا جائے تیسرا عورتوں کے حقوق اور تعلیم کے حوالے سے پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کیا جا سکے مانا کہ اسلامی تاریخ اس بات کی غماز ہے کہ مسلم اور اسلام دشمن قوتوں نے اسلام کیخلاف ہمیشہ ریشہ دوانیاں کیں عبداللہ بن سبا کا فتنہ اسکی مثال ہے مگر آج جہاں اسلام دشمن لابیاں، این جی اوز ہمارے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کیلئے ہمارے عقائد پر ضربات لگاتے ہیں، احتجاج کی آواز کو دبانے کیلئے کوئی نہ کوئی ایشو تلاش کرتے ہیں وہاں ماضی کے مقابلے میں ہمارے ملک میں کام کرنے والی این جی اوز ذرائع ابلاغ کی صورت میں ان ایشوز کو اچھالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔