مُسلم ہے تو اسلام میں آ

Elections

Elections

مُسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ یہ تھا وہ نعرہ کہ جس کو اساس بنا کر 1945 کے فیصہ کن انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ نے ہندووستان میں فقیر المثال کامیابی حاصل کر کے خود کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ثابت کیا۔ نتیجتاً برٹش وائسرائے مسلم لیگ کے دو نظریاتی مطالبے کو عملااً ماننے پر مجبور ہو گئے اور 1947 میں پاکستان کا کُرہ ارض میں پہلی مملکت خداداد کے طور پر وجود عمل میں آیا کہ جس کا وجود ماخذ صرف اور صرف اسلامی نظریہ تھا۔

وجود مملکت سے پہلے اور پہلے بانی پاکستان قائداعظم نے بار بار وضاحتاً یہ کہا کہ پاکستان کا واحد مذہب اسلام ہوگا اور پاکستانی آئین اور قوانین صرف اور صرف قرآن کے بتائے اصولوں کے تابع ہوں گے۔ 1973 کا متفقہ آئین اس بنیادی نکتے کی نمائندگی کرتا ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاظ ہو گا اور اسکے عملاً عمل داروں کی ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے۔

اس اجمالی خاکے کے بعد میں اصل موضوع کی طرف قائرین کی توجہ دلانا چاہتا ہوں آج کل پاکستانی حلقوں میں یہ بحث عام ہے اور طلبان اسکا ہدف تنقید بنے ہوئے ہیں کہ وہ مملکت اسلامیہ میں مرضی کا اسلام نافذ کرنا چہتے ہیں۔ طالبان نے ملا عمر کی سربراہی میں افغانستان میں اپنے اکلوتے راج میں مکمل اسلامی نظام کو بھی نافذ کئے رکھا جس کو کچھ معقول ترین تخفطات کے باوجود عالم اسلام میں معقول پزیزرائی رہی ہے۔

فہم اسلام کی ایک مثال سابق صدر پرویز مشرف نے بھی پیش کی کہ اس میں روشن خیالی کی ایک خود ساختہ شق اسلامی اصولوں میں شامل کر دی اور جس کی ایک بھیانک مثال جناب سابق صدر نے جلسوں میں ناچ گا کر عوام کو دکھائی۔ اسلام فہمی میں مرحوم ضیاء الحق بھی اپنی مثال آپ تھے۔

انہوں نے اسلامی نظریے کو نفاذ زکوة و عشر نظام اور اسلامی سزاؤں تک ہی محدود رکھا۔ اسلام کے اُس کڑے احتسابی نظام جس کی پاسداری بالخصوص حکمران وقت اور انکے حواریوں کے لئے امر لازمی ہے ان اصولوں سے ضیاء دور قطعی طور پر بے بہرہ رہا اور وہ اپنی غاصبانہ اور خود ساختہ حکومت کو ایک مجلس شورریٰ سے اُسی طرح منظور و مقبول کرواتے رہے جس طرح امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کی ناجائز بیعت کیلئے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے جلیل القدر صحابہ کو مجبور و معتوب کیا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یزید کو پورے عالم اسلام میں مسلمان ہونے کے باوجود باطل اور ظلم کی علامت کے طور پر تسلم کیا جاتا ہے۔

Taliban

Taliban

تمام مسلمان آج بھی یزید سے اُسی طرح نفرت کرتے ھیں کہ جس طرح شراب اور سود سے۔ قرآن حکیم میں واصع طور پر ارشاد ھے کہ ھم نے بچے کو مسلمان پیدا کیا۔ ھر مسلمان پر ارکان اسلام بھی نماز روزہ زکوة حج اور جحاد کی ادائیگی واجب ولازم ھے۔ نماز کے ساتھ خدا خوفی انسانی کردار و احلاق کی تکمیل رھا ھم رواداری اور زمہ داری انسانی شخسیت کا راز بھی جزو بن جاتا ھے۔

روزہ مسلمانوں کو صبر اور قربانی کا عظیم جزبہ پیدا کرتا ھے۔ زکوة ایک مالی عبادت ھے جس سے مسلمانوں کو اپنے غریب و لاچار بھائیوں کی مراد کی تلقین ھوتی ھے۔ حج ھر مسلمان پر زندگی میں کم از کم ایک بار فرض کیا گیا ھے۔ جھاد کے لئے اسلام میں ایک عمومی کلیہ طے ھے حاکم اسلامی ریاست بھرونی دشمنوں کے تسط یا اُنکی چیزہ دستوں کے خلاف ملک و قوم کے حق بچاؤ کے لئے جھاد اسلامی کا اعلان کر سکتا ھے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ حضرت امام حسن نے یزید کے حلاف اعلان جھاد کیا وہ بھی حکمران تھے۔

طالبان کا ظام حکمرانوں کے خلاف نفاد اسلامی نظم کے لئے جھاد کرنا تاریح اسلام جوانہ تلاش کر سکتا ھے مگر اصل نقطہ یہ ھے کہ وہ اپنے لشکریوں کو ارکان اسلام سے مکمل طور پر مُنور کر کے میران غرر میں اُتار رئے ھیں۔ شواھر اور تعائق یہ بتت ھیں کہ ان محاجرین کو خدائی وعدے کا یقین دلایا جاتا ھے جھاد کرو اور جنت میں داخل ھو جاؤ گئے۔ مئرا یقین ھے کہ پھلے تین بنیادی ارکان اسلام پر عمل پیرا ھوئے کوئی مسلمان حقیقی جھاد کر نھیں سکتا۔

کیا مسلمان اسلام میں یہ جنت تقسیم کرنے والے بھول جاتے ھیں کہ عالم اسلام کی اھم ترین لرائی کربلا میں حضرت امام حسین جب نماز عصر کا وقت ھوتا ھے اپنے بیٹے اور بھائیوں کے قاتلوں کے خلاف جھاد چھوڑ کر نماز کے لئے ھاتھ باند لیتے ھیں۔ کیا یزید فوج کربلا میں حضرت امام حسین کی اقترامیں نماز ادا نھیں کرتی رھی کیا مسلمان بدر کے میدان میں حالت روزہ میں جھاد نھیں کرتے رے۔ان ارکان اسلام پر مکمل عمل پیرا ھوئے جھاد ایک ظلم ھے۔

آج طالبان اُس امر کو جھاد کھتے ھیں کہ مسلمان جب مسجد وں میں افغل تریں رکن اسلام کی پحاروری کر رے ھوں اُنکو بچوں سے اُرادو رمضان کے بابرکت محینے کا انتظار صرف بڑے بڑے اجتماعات کے لئے کیا جاتا ھے اُنکو نشانہ بنایا جائے۔

Hammad Raza

Hammad Raza

تحریر : حماد رضا