آج یہ بات تو سب ہی کو معلوم ہے کہ جب ہماری نومولود حکومت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف وزارتِ عظمیٰ کا تیسری مرتبہ حلف لینے کے لئے آئے تھے تو اُنہوں نے اپنے خاندانی درزی سے اپنے لئے خصوصی طور پر جو شیراونی تیار کرائی تھی اُس کی قیمت اتنی تھی کہ اِس سے کئی غریب گھرانوں کی بچیوں کی ٹھیک ٹھاک طریقے سے شادی ہوسکتی تھیں، جو شادی کی عمرکو تو پہنچ چکی ہیں مگراِن کے والدین کے پاس کتنی رقم نہیں ہے کہ آج جتنی کسی لڑکی کی شادی کے لئے درکارہوتی ہے۔
مگر چونکہ تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کا اعزازو شرف ہمارے نومولود وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو حاصل ہے کہ یہ تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا باضابطہ حلف اُٹھانے والے ہمارے وطنِ عزیزکے پہلے وزیراعظم ہیں اور وزیراعظم بھی ایسے کہ جو کئی کٹھن مراحل سے گزرنے کے بعد اِس مقام اور مرتبے تک پہنچے ہیں، توابھی اِس لئے قوم نے اِنہیں صرف حلف اُٹھانے پر اتنی مہنگی ترین شیروانی سلوانے اورپہننے پر معاف ضرور کر دیا ہے مگر جیسے یہ اِن دنوں یعنی اپنی سویا سواسو دِنوں کی حکمرانی میں قوم کے معیار پر پورا نہیں اُتر سکے ہیں۔
اگریہ آئندہ بھی ایسے ہی رہے تو قوم اِن کا احتساب ضرور کرے گی اِنہیں جس کے لئے ابھی سے تیاریاں شروع کر دینی چاہئے۔ بہرحال..! تب تک کے لئے تو قوم نے اِنہیں معاف کر رکھا ہے ابھی وقت ہے کہ یہ اپنا اور اپنی حکومت کا قوم کی طرف سے قبلہ درست کرلیں اور اِس کے مفادات میں ایسے فیصلے کریں جس سے اِسے فائدے حاصل ہوں ورنہ قوم اگلے ایک دو سالوں میںاِن کاوہ حشر کرے گی کہ یہ حکمرانی تو دور کی بات ہے یہ سیاست کرنا بھی بھول جائیں گے خیرابھی چھوڑیں اِن باتوں کو ایسی باتیں میں اگلے وقتوں میں اپنی کسی اور کالم میں لکھنے کے لئے رکھ چھوڑتا ہوں، اورآگے بڑھتا ہوں۔
ہاں…! تو میں بات کر رہا تھا اپنے نومولود اور اکلوتے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف جی کی جنہوں نے مُلک کے تیسری مرتبہ بطور وزیراعظم کا حلف ا ُٹھانے کے لئے مہنگی ترین شیروانی سلوائی اور اِسے انتہائی تُزک و احتشام کے ساتھ زیب تن بھی کیا یقینا جس کے قیمتی ہونے کا یہ اپنی قریبی حلقوں میں اقرار بھی کر چکے ہوں گے اور یوں یہ خود بھی کئی مرتبہ اپنے قریبی حلقوں میں یہ بھی کہہ چکے ہوں گے کہ یہ خود کو اِس کا حقدار بھی سمجھتے ہیں اور اکثر سرکاری و نجی تقریبات میں اِس کا اظہار بھی کُھلے اور دبے لفظوں میں کر چکے ہوں گے۔
Pakistan
یہ وطنِ عزیز پاکستان کی تاریخ کے ایسے وزیراعظم ہیں جنہوں نے تیسری مرتبہ اِس مقام اور مرتبے تک پہنچنے کے لئے کئی آگ و خون کے دریاعبور کئے ہیں، اور یوں اِس کے بعد یہ شرفِ عظیم اللہ رب العزت نے صرف اِنہیں ہی بخشاہے،کہ یہ اپنی محنت اوراپنے پرائے کی چاپلوسیوں سے ہی تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے مرتبے پر فائز ہونے والے ایک ایسے وزیراعظم ہیں جنہیں اِس مقام تک پہنچانے میں صرف اِن کی دانش اور وہ سیاسی حربے اور چالیں اور ایسی ایسی سیاسی حکمتِ عملیاں بھی شامل ہیں جو کسی اور کے حصے میں نہیں آئیں ہیں۔
یوں اِس بِناپرآج ہمارے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اِس گھمنڈ میں بھی مبتلا ہو گئے ہوں گے کہ یہ اپنی محنت اور جدوجہد سے ہی اِس مقام تک پہنچے ہیں، اِس لئے قوم نے اِن سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ نے اتنی مہنگی شیروانی کیوں اور کس لئے سلوائی ہے …؟ جبکہ ایک عام اور سستی سی شیروانی زیب تن کر کے بھی تو یہ تقریبِ حلف برداری میں شرکت کر کے حلف لے سکتے تھے…؟آج اِسی قسم کے اور بھی بہت سے ایسے سوالات ہیں، جو وزیراعظم نوازشریف اور اِن کی تقریب حلف برداری والی شیروانی سے متعلق قوم کے ذہنوں میں جنم لے چکے ہیں۔
اِدھر اگر میں ابھی اِنہیں دہرانے بیٹھوں تو بات طول پکڑ جائے گی اور میں اپنے موضوع سے کہیں کا کہیں نکل جاؤں گا، اِسے میں پھر کسی اور کالم کے لئے چھوڑتا ہوں اور اپنے اصل موضوع کی طرف آتاہوں۔ بہر کیف ..! اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ نوازشریف ہمارے مُلک کے ایک ایسے وزیراعظم ہیں جو تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں اوراَب اِس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اِنہیں یہ مقام و مرتبہ بھلے اپنے پرائے کی چاپلوسی سے ہی حاصل ہوا ہے۔
مگر صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے والے ہمارے اکلوتے وزیراعظم ثابت ہوگئے ہیں، اور اِس کے ساتھ ہی اِنہیںیہ شرف بھی حاصل ہے کہ یہ بطور وزیراعظم پاکستان کے سب سے زیادہ امریکی صدورسے ملاقات کرنے والے ہمارے ایسے وزیراعظم ہیں جنہیں امریکی صدور اکثرکبھی کُھلے توکبھی دبے لفظوں میں دکٹیشنز بھی خوب دیتے رہیہیں اور اِنہوں نے اِن ڈکٹیشنز پر آنکھیں بندکرکے عمل بھی خوب کیاہے اور اپنی چاپلوسیوں سے امریکی صدوراور امریکی انتظامیہ کو یہ بھی باور کرایا ہے۔
Obama
یہ جس طرح اور جب اور جہاں چاہیں مجھ سے اور میری حکومت سے اپنے مفادات کے خاطر کام لے سکتے ہیں اور میں اِن کے ہر حکم کو اپنا سر تسلیمِ خم کرتے ہوئے تکمیل کرنے کا پابندرہوں گا۔ جبکہ یہاں امرواقع یہ ہے کہ آج بھی متذکراقسام کے جذبات کو اپنے سینے میں چھپائے ہماری چھ ساڑھے چھ ماہ کی کچی اور نومولود حکومت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف لگ بھگ اپنے تین درجن پر مشتمل جانثاراور قابلِ اعتبار و اعتماد افراد کے ساتھ جب چارروزہ امریکی یاترا(دورے) پر گئے تو اِس کے لئے بھی اِنہوں نے انتہائی قیمتی اور امپورٹد سوٹ خریدے اور سلوائے زیب تن کئے ہیں۔
آج جس کااندازہ میری طرح قوم کو بھی وائٹ ہاؤس سے آنے والی خبروں اور سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز اور مُلکی و عالمی اخبارات میں شائع ہونے والی اُن تصاویرسے بھی ہو گیا ہو گا جو امریکا میں نواز شریف اور اِن کے وفود میں شامل افراد سے متعلق سامنے آئیں ہیں۔
ارے بھئی ..! اَب ہمارے نومولود وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور اِن کے وفد میں شامل افراد ایسا بھی نہ کرتے توپھر بتاؤ ہمارے مُلک کے تیسری مرتبہ منتخب ہونے والے وزیراعظم اور کیا کرتے ..؟،اِس مرتبہ امریکی دورے پر اِنہوں نے اور اِن کے رفقائے کار نے قومی خزانے کا جتنا بیڑاغرق کیا ہے آج اِس کا بھی کوئی پرسانِ حال نہیں ہے، اتنے قیمتی سوٹ زیب تن کرنے کے باوجود بھی اِنہوں نے مُلک اور قوم کی سلامتی و خود مختاری اور سا لمیت کا سودا کرنے کے لئے امریکا سے جو وعدے اور معاہدے کئے اِس کی ایک جھلک تو قوم نے گزشتہ دِنوں امریکی ڈرون حملے سے حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ ہونے سے دیکھ ہی لی ہو گی۔
ہمارے یہاں اور کیا کچھ ہونے والاہے اِس کے لئے قوم کو ہر مرتبہ تھوڑی تھوڑی دیرکا انتظارکرناپڑے گا، نواز اُوباما ملاقات میں جو وعدے اور معاہدے ہوئے ہیںاِن سب کا قوم کے سامنے آنا یقینی ہو گیا ہے۔ جبکہ اَب اِس سارے منظر اور پس منظر میں راقم الحرف کا خام خیال یہ ہے کہ آج امریکی ڈرون حملے میں ٹی ٹی پی کے ایک فرنٹ لائن رہنما کی ہلاکت کے بعددونوں ممالک(پاک امریکا) کی جانب سے آنے والی جو خبروں ہیںاِن سے یہ اندازہ ہورہاہے کہ جیسے بظاہر تو دونوں طرف کی صورتِ حال کشیدہ ہے۔
Nawaz Sharif Obama
مگر ایسا ہرگز نہیں ہے جیسا نظر آرہا ہے جبکہ اندرونِ خانہ بات کچھ اور ہے، آج جس کو یہ دونوں باری باری چھپانے اور اِس پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں اور موجودہ حالات میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے نواز و اُوباما آپس میں دوگانے کی شکل میں کچھ اِس قسم کے گلے شکوہ اور شکایات کرتے محسوس ہورہے ہیںاور جیسے حالیہ ڈرون حملے پر اُوباما نواز شریف کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہے ہیںکہ:- تمہاری نظرکیوں خفاہوگئی خطابخش دوگرخطا ہو گئی۔ اور اِسی طرح جیسے کہ نوازشریف یہ کہہ رہے ہوں :- ہمارا اِرادہ تو کچھ بھی نہ تھا تمہاری خطاخودسزاہوگئی۔ اور دوسری طرف نوازشریف کے جواب میں جیسے اُوباما نوازشریف کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہے ہوں کہ: – ملاقات پراتنے مغرور کیوں ہو ہماری خوشامدپر مجبورکیوں ہو۔ اوراَب جس پر نواز شریف اُوباما کو کچھ یوں جواب دے رہے ہیں۔ محبت کا اَب کچھ بھی انجام ہو ملاقات کی ابتدا ہو گئی۔