وزیراعظم نواز شریف کی امریکی صدر اوباما سے ملاقات کے ایک ہفتے بعد امریکی ڈرو ن حملے میں کالعدم تحریک طالبان کے کمانڈر حکیم اللہ محسودکے جاں بحق ہونے سے حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت میں جہاں ایک طرف تعطل آیا ہے تو وہیں دوسری طرف سیاسی و مذہبی جماعتیں امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کے لئے حکومت کو مشورہ دے رہی ہیں۔جس روز حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملہ ہوا اس سے اگلے دن حکومتی وفد نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے اسی مقام پر جانا تھا جہاں ڈرون حملہ کر کے حکیم اللہ محسود کو قتل کیا گیا۔
امریکہ نے مذاکرات کو سبو تاژ کرنے کے لئے ایسے وقت حملہ کیا جب امن کے قیام کے لئے کوششیں جاری تھیں۔امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں امن ہو۔اس ڈرون حملے کے بعد سیاسی و مذہبی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔ طالبان کی شوریٰ نے ملا فضل اللہ کو اپنا امیر منتخب کر لیا ہے۔تحریک انصاف نے ڈرون حملوں کو رکوانے کے لئے نیٹو سپلائی بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔انکے سیاسی حریف مولانا فضل الرحمان نے بھی نیٹو سپلائی کی بندش کے حوالہ سے خیبر پختونخواہ حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔
خیبر پختونخواہ اسمبلی نے ڈرون حملون کے خلاف اور نیٹو سپلائی بند کرنے کی قرارداد منظور کر لی ہے اور وفاقی حکومت کو 20نومبر تک وقت دیا گیا ہے کہ حکومت ڈرون رکوائے نہیں تو پھر نیٹو سپلائی بند ہو گی۔عمران خان کہہ چکے ہیں کہ اگر حکو مت جاتی ہے تو چلی جائے نیٹوسپلائی نہیں گزرنے دیں گے۔حالیہ ڈرون حملوں کے بعد افرا تفری کی سی صورتحال پیدا ہونے کے بعد دفاع پاکستان کونسل ایک بار پھر میدان میں آ چکی ہے۔
پچیس اور چھبیس نومبر کی شب امریکہ و نیٹو فورسز کی جانب سے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے میں پاکستانی فوجیوں کی شہاد ت کے بعد دفاع پاکستان کونسل نے ملک گیر تحریک چلائی تھی۔دفاع پاکستان کونسل میں چالیس سے زائد سیاسی و مذہبی جماعتیں شامل ہیں یہ اتحاد صرف اور صرف ملک کے دفاع کے لئے بنایا گیا ہے تا کہ اس اتحاد کے ذریعے ملک کو درپیش خطرات و دشمنان کی سازشوں سے قوم کو آگاہ کیا جا سکے ۔جمعیت علماء اسلام(س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین ہیں جبکہ امیر جماعة الدعوة حافظ محمد سعید،امیر جماعت اسلامی سید منور حسن اورممتاز عسکری دانشور جنرل(ر) حمید گل سمیت دیگر سیاسی و مذہبی قائدین نے امریکہ و انڈیا کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کر رکھی ہے۔
PTI Rally
اس دوران لاہور میں مینار پاکستان،راولپنڈی میں لیاقت باغ،کراچی میں مزار قائد،ملتان،کوئٹہ،پشاور،فیصل آباد سمیت دیگر شہروں میں تاریخی جلسے کئے گئے جن میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔مینار پاکستان میں تحریک انصا ف کا جب پہلا جلسہ ہوا تھا تو یہ کہا جانے لگا کہ اب اس سے بڑا جلسہ یہاں نہیں ہو سکتا مگر اسکے بعد منہاج القرآن نے بھی وہاں جلسہ کیا۔عمران خان نے بھی ایک بار پھر لوگوں کو اکٹھا کیا مگر دفاع پاکستان کونسل کا مینار پاکستان پر ہونے والا جلسہ تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔
نیٹو سپلائی کے خلاف اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے انڈیا کو پسندیدہ ملک قرار دیئے جانے کے خلاف دفاع پاکستان کونسل نے لاہور سے اسلام آباد ڈی چوک تک لانگ مارچ کیا ۔دو روزہ لانگ مارچ میں دفاع پاکستان کونسل میں شامل تمام جماعتوں کے قائدین نے لاکھوں لوگوں کے ہمراہ رات سڑک پر ہی کھلے آسمان تلے گزاری ۔ڈی چوک پر پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ہونے والے جلسہ میں پروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا تھا کہ حکومت کی مجبوریاں ہو سکتی ہیں مگر ہماری کوئی مجبوری نہیں۔انڈیا لاکھوں مسلمانوں کاقاتل کبھی پسندیدہ ملک نہیں ہو سکتا۔
جب تک انڈیا کشمیر سے غاصبانہ قبضہ نہیں چھوڑتا ،پاکستان کی جانب آنے والے دریائوں پر سے بنائے گئے ڈیم ختم نہیں کرتا ،انڈیا کے ساتھ نہ تو تجارت ہو سکتی ہے اور نہ ہی مذاکرات،اسی دفاع پاکستان کونسل کے ملک گیر پروگراموں میں لاکھوں افراد کی شرکت سے اس وقت کی حکومت بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوئی کہ انڈیا کو پسندیدہ ملک قرار دیا جائے یا نہیں،بالآخرپیپلز پارٹی کی حکومت نے یہ فیصلہ آنے والی نئی حکومت کے لئے چھوڑ دیا۔مئی میں انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف ملک کے وزیر اعظم بنے۔
عوام کو امید تھی کی وہ ان کی خواہشات کے مطابق فیصلے کریں گے اورعوامی توقعات پر پورا اتریں گے مگرمسلم لیگ(ن) کی حکومت کے بعد ایک طرف جہاں ملک میں مہنگائی کا طوفان بڑھا تو دوسری طرف بم دھماکوں کا سلسلہ بھی نہ رک سکا۔امریکی صدر اوباما سے ملاقات کے دوران وزیراعظم نے ڈرون حملوں کا مسئلہ اٹھایا لیکن امریکہ صدر محب وطن جماعتوں کے خلاف پابندیوں اور انڈیا کے حوالہ سے بات چیت کرتے رہے۔اس ملاقات کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا کہنا تھا کہ ملاقات سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔
Drone attacks
مولانا سمیع الحق نے کہا کہ نواز شریف ملاقات میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی ،ڈرون حملوں کے حوالہ سے اوباما سے کھل کر بات نہ کر سکے اب قوم ان سے مایوس ہے اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کا حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کا وقت آگیا ہے۔ملاقات کے ایک ہفتہ بعد حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملہ میں نشانہ بننے کے بعد دفاع پاکستان کونسل میں شامل جماعتوں کے سربراہان کا اسلام آباد میں اجلاس ہوا اور جمعہ کو نیٹو سپلائی و ڈرون حملوں کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا گیا۔
دفاع پاکستان کونسل نے تحریک انصاف کے نیٹو سپلائی بند کرنے کے فیصلے کی بھی تائید کی۔دفاع پاکستان کونسل کے زیر اہتمام لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، اسلام آباد، پشاور،ملتان، کراچی، حیدر آباد،کوئٹہ و دیگر شہروں میںزبردست احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور ریلیاںنکالی گئیں۔جماعة الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان میں امن نہیں چاہتا،حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملہ مذاکرات کو ناکام کرنے کی سازش تھی۔ حکومت پاکستان اور طالبان کو سازشوں کا شکار ہونے کی بجائے مذاکرات کا عمل جاری رکھنا چاہئے۔مرکزی حکومت ڈرون طیارے گرانے کا حکم دے اور نیٹو سپلائی بند کی جائے۔
اگر ڈرون طیارے نہ گرائے تو قوم میں مایوسیاں پھیلیں گی۔دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے پورے ملک میں زبردست تحریک چلائیں گے اوراتحادویکجہتی کے ذریعہ پاکستان کے دفاع کا فریضہ سرانجام دیں گے۔دوسری طرف حکومت کی جانب سے دوبارہ موجودہ صورتحال پر اے پی سے بلائے جانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں۔حکومت نے امریکی خواہش پر طالبان سے مذاکرات کیلئے دوبارہ اے پی سی بلانے کا ڈھونگ رچایا تو وقت کا ضیاع اور قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی مکروہ سازش ہوگی۔
حکومت کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ فوری طور پر سابقہ اے پی سی کے متفقہ فیصلوں پر عمل درآمد کا آغاز کردے۔ڈرون حملوں کے خلاف ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ بھی آچکی ہے جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی ڈرون حملوں کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے ،ہمسایہ ملک چین نے بھی ڈرون حملوں کو پاکستان کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا ہے جبکہ گزشتہ دنوں عزم نو مشقوں میں پاک فوج نے ڈرون گرانے کا عملی مظاہرہ بھی کیا ہے۔
جہاں وزیراعظم بھی موجو د تھے،ڈرون گرنے پر وزیر اعظم مسکرائے ۔اب وقت ہے پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اور ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اگر امریکہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کا بدلہ لینے کے لئے نہتے افغانیوں پر چڑھائی کر سکتا ہے تو ہم اپنے ملک کے دفاع کے لئے ڈرون کیوں نہیں گراتے،اب سوچنے اور اے پی سی کرنے کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کا وقت ہے۔