نیروبی (جیوڈیسک) کینیا سے پانچ لاکھ صومالی پناہ گزینوں کی واپسی کا معاہدہ طے پا گیا۔ معاہدے کے تحت صومالی باشندے اپنی مرضی سے آئندہ تین سال میں صومالیہ واپس لوٹیں گے۔ صومالی شہریوں نے ملک میں جنگ اور شدید غربت کے باعث کینیا میں پناہ لے رکھی تھی۔ افریقی ملک کینیا سے تقریبا پانچ لاکھ صومالی پناہ گزینوں کو اپنے ملک واپس بھیجا جائے گا۔
اس واپسی کا منصوبہ اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزینوں اور دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان ایک سہہ فریقی معاہدہ طے پانے کے بعد ممکن ہو سکا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اس معاہدے کے تحت صومالی باشندے اپنی مرضی سے آئندہ تین سال میں صومالیہ واپس لوٹیں گے۔ صومالی شہریوں نے ملک میں جنگ اور شدید غربت کے باعث کینیا میں پناہ لے رکھی تھی۔
کینیا میں صومالی پناہ گزینوں کے لئے بنائے گئے دو کیمپ دباب اور کاکوما اب قصبوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ دارالحکومت نیروبی کا مضافاتی علاقے ایسٹ لیح میں صومالی افراد کی اتنی تعداد مقیم ہے کہ اب اسے منی صومالیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ پناہ گزین 1991 میں صومالیہ کی مرکزی حکومت گرنے کے بعد ملک چھوڑ کر آئے تھے۔
ان میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو کہ کینیا کے انہی کیمپوں میں پیدا ہوئے اور انہوں نے کھبی اپنا ملک دیکھا تک نہیں۔ دونوں ممالک کی حکومتوں اور اقوام متحدہ کو امید ہے وہ واپسی کا ایسا منصوبے پیش کر سکیں گے جس سے یہ پنا گزین صومالیہ میں ایک نئی زندگی شروع کر سکیں گے اور ملک کی تعمیرِ نو میں شریک ہو سکیں گے۔
صومالیہ کی نائب وزیرِ اعظم فوزیہ یوسف آدم کا کہنا تھا کہ ان کا ملک پناہ گزینوں کی محفوظ واپسی کی تیاری کر رہا ہے۔ ہمارے خطے میں دہشتگردی ابھی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ صومالیہ کی ریاست ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کرے گی جن سے صومالی پناہ گزین محفوظ اور باوقار انداز میں کینیا اور دیگر ہمسایہ ممالک سے اپنے ملک واپس آ سکیں۔
کینیا میں اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزینوں کے نمائندے راف مازو کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ عالمی برادری کے لئے ایک اشارہ ہے کہ وہ ایک طویل عرصے سے جاری اس تنازع کے حل میں اپنا کردار ادا کریں۔ تاہم اس معاہدے میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ صومالی ابھی بھی محفوظ نہیں ہے اور بیشتر پناہ گزینوں کو یہ پتا ہے اور شاید اسی لئے وہ واپس نہ جانا چاہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ کینیا کو اپنے ہمسایہ ملک کی مدد کرنے پر بہت تعریف ملی تھی تاہم اب بہت سے لوگ اس اضافی بوجھ سے تنگ آ چکے ہیں۔ کینیا کے نائب صدر ولیم روتو کا کہنا ہے کہ یہ پناہ گزین کینیا کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والوں کے لیے ڈھال بن چکے ہیں۔