سستا ڈالر اور مہنگا ٹماٹر

Pakistan

Pakistan

کہا اور سنا یہی جاتا ہے کہ پاکستان غریبوں کا ملک ہے اور حکمران کا وجود تو ہے ہی غریبوں کے لئے۔ کیونکہ حکمرانوں کو اقتدار کی مسند پر غریب ہی اپنے ووٹوں کے ذریعے بٹھاتے ہیں۔ گھنٹوں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنے ووٹ کاسٹ کرنے والے یہ غریب سیاستدانوں کو تاجِ اقتدار پہناتے ہیں تو دوسری طرف امیر لوگ دن بھر اپنے نرم، آرام دہ و گداز بستر وں پر آرام کرکے گزارتے ہیں اور شام کو جب انہیں یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ غریبوں نے اپنا کام کر دیا ہے تو ٹی وی کے سامنے چائے اور ناشتے سمیت نتیجہ دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں، یعنی کہ اس موقعے پر بھی وہ اپنے ووٹ کا استعمال کم ہی کرتے ہیں اور انحصار غریبوں پر کیا جاتا ہے۔

پھر کیا ہے جناب رات ڈھلتے ہی نتیجہ مکمل سنا دیا جاتا ہے اور مسندِ اقتدار پر بیٹھنے والے غریبوں کو بھول جاتے ہیں۔ جیسا کہ آپ سب کو ہی معلوم ہے کہ آج مہنگائی کہاں جا پہنچی ہے، یہ مہنگائی کے ذمہ دار کیا غریب ہیں؟ نہیں نا! تو یقینا یہ مہنگائی کرنے والے حکمران ہی ہیں۔ ویسے تو پاکستان میں کوئی بھی اشیاء ایسی نہیں ہے جس کی قیمت کم ہو اور غریب اسے خرید سکے۔ آج آٹا اڑتالیس روپے کلو فروخت ہو رہا ہے، دالوں کی قیمتیں سو روپئے سے زائد ہیں، گائے کا گوشت لگ بھگ چار سو روپئے کلو فروخت ہو رہا ہے، غرض کہ تمام ہی بنیادی ضروری اشیاء غریبوں کی پہنچ سے دور ہے۔ رہ گئی تھیں سبزیاں جن میں سرِ فہرست ٹماٹر ہوتا ہے کیونکہ یہ تمام کھانوں کی جان ہے۔ تو جناب آلو آج چالیس روپئے کلو اور پیاز ساٹھ روپئے کلو فروخت ہو رہا ہے اور سبزیوں کے ٹھیلوں پر ایک سرخ سرخ رنگت والی شئے بھی آپ نے دیکھا ہی ہوگا جسے حرفِ عام میں ”ٹماٹر ” اور انگریزی میں Tomato سے تشبیح دیتے ہیں۔ آج پاکستان میں اس کی قیمت دو سو روپئے کلو ہے۔ جو کہ یقینا غریبوں کی پہنچ سے کافی دور ہے۔

ہم اظہارِ ناراضگی کے ساتھ کہیں یا خوش دلی سے، یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کر رہے ہیں کہ آج امریکی ڈالر یقینا سستا ہو گیا ہے اور ٹماٹر اس ملک میں مہنگا ہو گیا ہے۔ چلیں کوئی چیز تو ایسی ہے جس نے ڈالر کے مقابلے میں اپنی قیمت بڑھائی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹماٹر اپنی سرخی سمیت غریبوں کی پتیلیوں سے دور جا چکا ہے مگر اس کے مقابلے میں امریکی ڈالر تو سستا نظر آتا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ اب ٹماٹر فی کلو کم از کم تقریباً دو ڈالر کے عوض مل سکتا ہے۔

Tomatoes Price

Tomatoes Price

ہمارے ممبرانِ اسمبلی بھی عجیب و غریب خیالات کے مالک ہوتے ہیں۔ وزیر داخلہ کے دیئے ہوئے اعداد و شمار پر تو الگ اسمبلی سجا لیتے ہیں مگر غریبوں کے مسائل پر کبھی الگ اسمبلی نہیں سجائی گئی۔ مہنگائی کے خلاف کبھی الگ اسمبلی نہیں لگی، بے امن و امانی، بیروزگاری اور کرپشن کے لئے کبھی الگ اسمبلی کا تاثر نظر نہیں آیا۔ یعنی کہ ہم وثوق سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام ہی ارباب کبھی غریبوں کے خیر خواہ نہیں رہے۔ اگر ہوتے تو اس ملک میں زیادہ تعداد میں بسنے والے اُن غریبوں کے لئے ایسی اسمبلیاں ضرور سجاتے۔ مہنگائی میں کمی ہو یا نہیں، کرپشن ختم ہو یا نہیں، بیروزگاری ختم ہو یا نہیں، کم از کم ان بنیادی ایشوز پر بھی ایسی اسمبلیوں کو وجود میں آنا چاہیئے تاکہ حکمرانِ وقت تک غریبوں کی بات پہنچائی جا سکے۔ آج ہمیں یہ بات بالکل سچ لگتا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ خود کشی کرنا آسان اور زندہ رہنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ یہ بھی سچ ہی ہے کہ جس طرح مہنگائی کا جن اقتدار کی بوتلوں سے برآمد ہوا ہے اب اس مہنگائی کا بوتل میں واپس جانا ممکن نہیں ہے۔

یہ میرا خیال ہے ہو سکتا ہے کہ کوئی حکمران ایسا آ جائے جو غریبوں کے لئے یہ سب کچھ کر گزرے۔ لیکن فی الحال ایسا ہوتا ہوا ممکن نہیں لگتا۔ کسی نے لکھا ہے کہ مہنگائی اسی وقت کم ہو سکتی ہے جب عوام متحد ہوکر اس کا مقابلہ کریں یعنی کہ اگر فروٹ کی قیمت اچانک غیر معمولی طور پر بڑھا دی گئی ہو جیسا کہ آج کل انگور، سیب اور انار وغیرہ کے ساتھ ہو رہا ہے تو اس کی قیمت اسی صورت واپس کم نرخ پر آسکتی ہے جب لوگ اسے خریدنا چھوڑ دیں۔ ظاہر ہے کہ جب یہ فروٹس گلنے اور سڑنے لگ جائیں گے تو اس کی قیمت ضرور کم ہوگی۔ ٹھیک ہے مگر اس میں بھی ابہام موجود ہے کہ قصور یہ پھل بیچنے والوں کا ہی نہیں بلکہ قصور تو وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے اس کی آمد ہوتی ہے۔ یعنی کہ منڈیوں میں قیمت کم ہونی چاہیئے جہاں بڑے بڑے تاجر ان بیٹھے ہیں جن کے پاس گودام کی صورت بڑی بڑی جگہیں موجود ہیں اور وہ سستی چیزیں خرید کر اس میں سامان کو ڈمپ کر دیتے ہیں اور جب مہنگائی کرنا ہوتا ہے تو اسے مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔

آپ یہ ببانگِ دہل کہہ سکتے ہیں کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ کس کس کو اور کہاں کہاں کو روئیں گے۔ ہماری میڈیا اکثر و بیشتر مہنگائی کے بارے میں مختصر پروگرامز دکھاتا ہے مگر انہیں بھی چاہیئے کہ غریبوں کے زخم پر مرہم رکھیں۔ اور اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لئے کم از کم پچاس منٹ کے دورانئے پر محیط ایسے پروگرام بلا ناغہ پیش کریں جس سے براہِ راست غریب عوام متاثر ہو رہے ہیں۔ اس سے اچھا قدم اقتدار کے کانوں تک آواز پہنچانے کا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے ۔ آزادی کے بعد اور آج کے پاکستان میں بڑا فرق ہو گیا ہے۔ پہلے اتنا بد ترین دور کبھی بھی پاکستان پر نہیں آیا۔ اس وقت پاکستان کو یکے بعد دیگرے بہت سے بحرانوں اور غیر ملکی حملوں کا خطرہ بھی ہے۔ مگر سب سے اہم مسئلہ ملک میں مہنگائی، بے روزگاری کا ہے جس پر حکومت کو چاہیئے کہ وہ فی الفور اپنے اچھے لائحہ عمل کا اعلان کرے اور غریبوں کو جینے کا حق بخشے۔

کیا انہیں نہیں پتہ کہ غریب خود کشیوں کی طرف کیوں راغب ہو رہے ہیں؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ غریب اپنے جسموں کے اعضاء کیوں فروخت کرنے پر مجبور ہے؟کیا انہیں نہیں معلوم کہ غریب اپنے بچوں کو بیچنے پر کیوں مجبور ہو گیا ہے؟ یقینا معلوم ہے اور اس کی جڑ بھی یہی مہنگائی ہے۔ آج غریب تین وقت کی روٹی کے بجائے ایک وقت کھانے پر مجبور ہے۔ ایک شاعر نے لکھا ہے اور کیا خوب لکھا ہے۔

ہم بھی بِکنے گئے تھے بازارِ محبت میں ائے دوست
وہاں گئے تو پتا چلا کہ انسان سستے ہیں اور ٹماٹر مہنگے

دولت جمع کرنے والو! اس کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیں کیونکہ وہ جس دولت کو اپنا سمجھ رہے ہیں وہ کسی کی نہیں ، اگر میری باتوں کا یقین نہیں تو جائیں قبرستان جاکر قبرستان والوں سے پوچھ لیں، کیا ا ن کی دولت جسے وہ ” اپنی ” سمجھتے تھے اور اسے اکٹھی کرتے کرتے مر گئے کیا وہ قبرستان کے اندر ان کے ساتھ آئی؟ یا باہر ہی رہ گئی۔ یقینا باہر ہی رہ گئی۔ کیونکہ قبروں میں صرف آپ کا اعمال ہی جائے گا، اس لئے ضروری ہے کہ عوام ہو یا حکمران دنیا میں اچھے اعمال کریں جو آخرت میں اُن کے کام آئے۔ دعا ہے کہ رب العزت ! ہمیں ملک کے عوام کی داد رسی کرنے والے حکمران عطا کریں۔

Javed Iqbal Siddiqui

Javed Iqbal Siddiqui

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی