سرتاج عزیز ” دہلی” میں

Sartaj Aziz

Sartaj Aziz

پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے دہلی کے دورے کے دوران حریت رہنمائوں سید علی شاہ گیلانی، میرواعظ عمر فاروق، محمدیاسین ملک، پروفیسر عبدالغنی بٹ، بلال غنی لون، ایڈوکیٹ محمد شفیع ریشی و دیگر کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور انہیں اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ کشمیریوں کی قربانیوں اور اُمنگوں کیساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔

موجود ہ پاکستانی حکومت عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرتی رہے گی اور حصول حق تک پاکستان کشمیریوں کی سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔تین الگ الگ نشستوں میں سرتاج عزیز نے کشمیری لیڈروں سے ملاقات کی اور کہا کہ پاکستان کشمیریوں کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسلام آباد کی یہ خواہش اور پالیسی ہے کہ کشمیریوں کو اپنا تسلیم شدہ حق جلد سے جلد مل جائے۔ میاں نواز شریف مسئلہ کشمیر کو جلد سے جلد حل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور ان ہی کوششوں کے تحت انہوں نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران اوبامہ سے مسئلہ کشمیرکے حل میں رول ادا کرنے کی اپیل کی۔ پاکستان کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر کا بنیادی فریق مانتا ہے اور اسی بنیاد پر اس مسئلے کے حل سے متعلق ہونے والے مذاکرات میں کشمیری قیادت کی شمولیت کے حق میں ہے۔

حریت رہنمائوں نے ملاقات میں پاکستانی مشیر خارجہ پر واضح کیاکہ بھارت کیساتھ مذاکرات کے وقت پاکستان کو بنیادی مسئلہ یعنی مسئلہ کشمیر پر اولین توجہ مرکوز کرنی چاہئے کیونکہ یہی مسئلہ اس خطے میں عدم استحکام، ٹکراؤ اور ہندپاک تعلقات میں بنیادی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ کشمیری اور کشمیریوں کی قیادت پاکستان کی طرف سے جاری سیاسی، سفارتی اور اخلاقی تعاون کیلئے مشکور ہے لیکن قوم اور قیادت کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ سہ فریقی مذاکرات کیلئے راہ ہموار کئے بغیر مسئلہ کشمیر کا قابل قبول، منصفانہ اور پائیدار حل نکالنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔کشمیریوں نے اپنی ایک پوری نسل اپنے تسلیم شدہ اور جائز حق کیلئے قربان کی ہے اور کشمیری یہ نہیں چاہتے کہ آنے والی نسلوں کو بھی اپنے حق کیلئے کوئی بھی خطرناک راستہ اختیار کرنا پڑے۔

کشمیریوں نے ہر طر ح کی قربانیاں پیش کی ہیں، سینکڑوں کی تعداد میں مزار شہداء، درجنوں کی تعداد میں گمنام قبریں، ہزاروں کی تعداد میں یتیم بچے، سینکڑوں کی تعداد میں بیوہ خواتین اور ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ کشمیری اس بات کا بین ثبوت ہے کہ کشمیریوں نے اپنے وطن کی آزادی اور خودمختاری کیلئے کس قدر مظالم اور ستم اٹھائے ہیں۔ ملاقات کے دوران بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی نے کہا کہ جنرل(ر) مشرف کی طرف سے کشمیر کے مسئلہ پریکطرفہ لچک دکھانے اور چارنکاتی فارمولہ سامنے لانے کی وجہ سے کشمیریوں کی جدوجہد کو سخت نقصان پہنچا۔ پاکستان یا کشمیری قیادت کو دیرینہ اور اصولی موقف پر کاربند رہنے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں پر عمل درآمد کے موقف پر اٹل رہنا چاہئے۔

Kashmiri People

Kashmiri People

کشمیری عوام نے اپنے تسلیم شدہ اور جائز حق کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور آج بھی کشمیری اپنے حق کیلئے ہر طرح کے مصائب اور مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ بھارت کو نتیجہ خیز مذاکرات کی راہ پر لانے کیلئے پاکستان اور کشمیری قیادت کو عزم و استقلال کی راہ پر ڈٹے رہنا چاہئے۔ سرتاج عزیز کے کشمیری رہنمائوں سے ملاقات کے انکشاف پر انتہا پسند ہندو سیاسی تنظیم بی جے پی بھڑک اٹھی اوربھارتی جنتا پارٹی کے صدر راجناتھ سنگھ نے ٹائمز آف انڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گورنمنٹ ایک بڑی سفارتی غلطی کر چکی ہے کہ انہوں نے بھارتی سر زمین پر پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز کی کشمیری لیڈرورں سے ملاقات کرائی اور اس بھونڈے مذاکراتی عمل پر فوری پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جموں و کشمیر میں انتشار پھیلا رہا ہے ایسے میں سرتاج عزیز کو یہ موقع کس طرح دیا جا سکتا ہے، پاکستان کی وحشیانہ حرکت عالمی سفارتی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔

ارجناتھ سنگھ کا مزید کہناتھا کہ پاکستان کئی برسوں سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر ابھارنے کیلئے کوششیں کر رہا ہے اور حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک دفعہ بھر پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر نا قابل قبول بیان بازی کی گئی۔ انہوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا یہ حکومت پاکستان کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ سارا بھارت پاکستان کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزیوں کا سامنا کر رہا ہے اور یو پی اے حکومت ایسی شرمناک حرکت کر رہی ہے۔برصغیر پاک و ہند میں امن، ترقی اور خوشحالی کیلئے مسئلہ کشمیر کو اسکے تاریخی پس منظر میں 5جنوری 1949کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنا ناگزیر بن جاتا ہے اس لئے امن عمل کو درپیش خطرات کو دور کرنے کیلئے جب بھی دونوں ممالک ملیں تو بات چیت میں مرکزیت مسئلہ کشمیر کو ہی دینی چاہیے وگرنہ ملا قاتیں ہونگی ،مذاکرات ہونگے لیکن بے سود اور بے نتیجہ۔اسلئے سیاسی دانشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ ایسے بیانات سے پرہیز کیا جائے جو کسی طور بھی کشیدگی میں اضافہ کا باعث بنیں۔ پاکستان جہاں بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا ایک پر امن اور پائیدار حل ڈھونڈنے کی بات کرتا ہے وہیں بھارتی قیادت اپنے سیاسی فوائد کو نظر میں رکھتے ہوئے کشمیر پر اپنا جبری تسلط جائز ٹھراتا ہے اور کشمیر پر اپنے فوجی قبضے کو دوام بخشنے کیلئے حقائق سے چشم پوشی کر تے ہوئے اسکو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے ایسے اشتعال انگیز بیانات سے مسائل کے حل میں کبھی بھی مدد نہیں مل سکتی بلکہ ان میں صرف اضافہ ہی ہو سکتا ہے کشمیر میں تحریک آزادی پورے ہوشمندی اور جذبے سے سرشار بھر پور طریقے سے جاری ہے اور جس قوم کی مائیں ایسے بیٹے پیدا کریں جو اپنے وطن کی آزادی کی خاطر قربان ہونے کا جذبہ رکھتے ہوں انہیں شکست دینا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز اپنے بھارت کے دورہ میں کوئی ایسی بھارتی شرط تسلیم نہ کریں جو قومی موقف کے خلاف ہو اور خطے میں بھارتی بالادستی، انتشار اور انارکی کا باعث بنے۔ خطے میں قیام امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ پاکستان کشمیر کو نظر انداز کر کے اپنی شناخت قائم نہیں رکھ سکتا۔ خطے میں طاقت کے توازن کو برقراررکھنے کیلئے بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی چاہئے۔ بھارت پاکستانی دریائوں پر بند باندھ کرہمارے خلاف آبی جارحیت کررہا ہے مشیر خارجہ کواس حوالے سے بھی سخت موقف اپنانا چاہئے اور بھارتی آبی جارحیت پر بھارتی حکومت سے سخت احتجاج کرنا چاہئے۔ امریکی حکم پر بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے اور بھارت کو سر پر بٹھانے کی کوئی کوشش کی گئی تو قوم خاموش نہیں رہے گی ،بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے جس نے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ بھارت قیام پاکستان سے آج تک پاکستان کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے اور ہر موقع پر اس کی سا لمیت کو نقصان پہنچانے کے نت نئے ہتھکنڈے اورحربے استعمال کئے ہیں بھارتی مداخلت کے ذریعے 71ء میں پاکستان کو دولخت کردیا گیا۔

پاکستانی سرحدوں پر آئے روز اشتعال انگیز حملے کئے اور درجنوں بے گناہ شہریوں اور فوجیوں کو شہید کردیا جاتا ہے۔ صرف آلو پیاز کی تجارت کے لئے بھارت سے دوستانہ تعلقات قائم نہیں ہو سکتے جب تک کہ بھارت کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں دے دیتا اور مسئلہ کشمیر سمیت پاکستان کے ساتھ دریائوں کے پانی کے تنازع کو حل کرنے کیلئے تیار نہیں ہو جاتا۔ حکمرانوں نے بھارت کے ساتھ کسی ایسے تجارتی یا سیاسی معاہدے کی کوشش کی جو ملک و قوم کے مفاد نہ ہوا تو قوم ایسے معاہدے کو تسلیم نہیں کرے گی اور اس کی سخت مزاحمت کی جائے گی۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر: ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472