قومی اسمبلی میں بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کی قرار داد پاس ہونے اور تمام سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اس مسئلہ پر یکجہتی کا پیغام آنے کے بعد سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو نئے شیڈول کے مطابق بلدیاتی انتخابات کرانے کی اجازت دے دی ہے جس کے تحت پنجاب میں اب بلدیاتی انتخابات 30 جنوری جبکہ سندھ میں 18 جنوری کو ہوں گے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں بلدیاتی انتخابات کے التوا کے لئے الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست کی سماعت سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی، سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے نئے شیڈول کو منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو نئی مجوزہ تاریخوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی اجازت دے دی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن، صوبائی حکومتیں مل کر بلدیاتی انتخابات کی تاریخ طے کریں اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ کی جانب سے کسی قسم کی آبزرویشن نہیں دی جائے گی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کا نیا شیڈول دیا ہے اور اس سلسلے میں آج صوبے الیکشن کمیشن کے ساتھ بیٹھ کر حتمی تاریخ طے کریں گے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے خود تاریخیں نہیں دیں بلکہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی درخواست پر تاریخیں مقرر ہوئیں، ملک میں آئین کا اس کی روح کے مطابق نفاذ ہمارا فرض ہے لیکن بدقسمتی سے ہر کوئی اس میں تاخیر کر رہا ہے۔
انتخابات کا انعقاد ممکن بنانا الیکشن کمیشن کا کام ہے لیکن وہ کبھی بال سپریم کورٹ اور کبھی صوبوں کی کورٹ میں پھینکتا ہے۔ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اپنے دلائل میں کہا کہ سندھ میں 27 نومبر کو بلدیاتی انتخابات نہیں ہوسکتے، اس سلسلے میں وہ کوئی بہانے کے بجائے زمینی حقیقت بتا رہے ہیں جس پر چف جسٹس نے کہا کہ لوگ پہلے ہی بہت زیادہ مشکلات دیکھ چکے ہیں، ہمیں اب آئین پر عمل کرنا ہے۔اس سے قبل سپریم کورٹ میں تمام صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی الیکشن کے لئے خود تاریخ دی تھیں جب عدالت عالیہ نے حکومتوں کی طرف سے دی گئی تاریخوں پر الیکشن کروانے کا حکم دیا تو انہی حکومتوں نے بہانے بنانے شروع کر دیئے ۔الیکشن کمیشن نے عدالت کے حکم کے مطابق الیکشن کروانے کی ٹھانی مگر حکومتوں نے جہاں بہانے بنانئے تو وہیں سیاسی جماعتوں نے بھی اس مسئلہ پر”ایکا” کر لیا۔مجلس وحد ت المسلمین نے تو اعلان کردیا کہ محرم الحرام کی وجہ سے الیکشن مارچ سے پہلے نہیں ہونے چاہیں۔
Election Commission
اگر ہوئے تو بائیکاٹ کریں گے۔جبکہ دیگر جماعتوں نے اپنے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا تھا۔ کاغذات نامزدگی بھی جمع ہو رہے تھے۔چیئرمین اور وائس چیئرمین، جنرل کونسلر کے امیدوار اپنے حامیوں کے ہمراہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لئے تیار تھے۔ سیاسی جماعتیں ایک طرف الیکشن ملتوی کرنے کی باتیں کر رہی تھیں تو دوسری طرف تمام جماعتیں الیکشن کی تیاریوں میں بھی مصروف تھیں۔گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک انصاف نے الیکشن کے التواء کی قرار داد پاس کی جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ یہ ایوان اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ آئین کے مطابق پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاداشد ضروری ہے۔ یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین کے آرٹیکل 140اے (2)کے تحت اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہوئے ان انتخابات کاآزادانہ اور شفاف انعقاد جس قدر جلد ممکن ہو یقینی بنائے۔
انتخابات کا عجلت میں انعقاد آئین کے مذکورہ بالا آرٹیکل کی خلاف ورزی ہوگی۔الیکشن کمیشن پورے ملک میں تمام قانونی اور انتظامی تیاریوں کی تکمیل یقینی بنانے کے بعد بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی ایک قابل عمل تاریخ مقرر کرے۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شا ہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عدلیہ پارلیمنٹ کی آواز نہیں سن رہی، عام انتخابات اور صدارتی الیکشن پر سوالیہ نشان ہیں،کیا اب بلدیاتی الیکشن پر بھی سوالیہ نشان لگوانا چاہتے ہیں،بیلٹ پیپرز نہیں ہیں،عوام سے مساجد میں ہاتھ اٹھوا کر نمائندے منتخب کرا لیں۔گویا انکی یہ تجویز پاکستانی عوام کو بھا بھی سکتی تھی اس میں الیکشن میں اخراجات بھی کم آنا تھے مگر شاید اس کے لئے پھر قانون سازی کی ضرورت پڑتی اور قانون بنانے والے کئی سال صرف اس میں لگا دیتے۔خورشید شاہ نے جب عدلیہ کے بارے میں باتیں کیں تو اسپیکر ایازصادق انکو عدلیہ کے بارے میں بولنے سے روکتے رہے جس پر خورشید شاہ نے کہا کہ توہین عدالت کا نوٹس ملے گا تو کیا پارلیمنٹ خاموش بیٹھے گی؟ آمدہ بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔
بلدیاتی انتخابات میں لاہور کی 271 یونین کونسلوں کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ سینکڑوں امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کروائے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین، وائس چیئرمین اور کونسلروں کے امیدوار گروپوں کی شکل میں کاغذات داخل کروانے آئے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے امیدوار فائنل کرلئے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر پاکستان تحریک انصاف رہی جس کے امیدواروں نے کاغذات داخل کرائے تاہم تحریک انصاف اپنے تمام امیدواروں کا تاحال حتمی فیصلہ نہیں کرسکی ہے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام (ف) کے امیدواروں نے بھی کاغذات داخل کروائے۔ پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ نے اپنے حامیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ جس نشست کیلئے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں اسکے کاغذات سے داخل کروا دیں۔ کاغذات کی سکروٹنی اور نشانات کی الاٹمنٹ کے موقع پر پارٹی امیدواروں کا فیصلہ کرکے انہیں ٹکٹ جاری کردئیے جائیں گے۔
اب الیکشن کی نئی تاریخ آنے کے بعد امیدوراوں کو مزید وقت مل گیا ہے۔قومی اسمبلی کی قرارداد کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے تجویز کردہ نئی تاریخوں پر سپریم کورٹ نے الیکشن کروانے کا اعلان کرد یا اب دیکھتے ہیں کہ نئی تاریخوں پر بھی الیکشن ہو پاتے ہیں یا نہیں؟ عوام توالیکشن سے تنگ آ چکی ہے، وہی پرانے چہرے ،پارٹیاں بدل بدل کرِہر الیکشن میں عوام کو نئے نئے خواب دکھانے والے ،الیکشن کے دنوں میںہر جنازے میں پہنچ کر ”ثواب ” حاصل کرنے والے،الیکشن جیتنے کے بعد دوبارہ عوام کو کہیں نظر نہیں آتے،عوام کی جو حالت پہلے تھی آج بھی وہی ہے۔
مسائل اسی طرح ہیں۔ مہنگائی میں اضافہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا، دہشتگردی کا بیج بھی بڑھ ہی رہا ہے۔ مگر عوامی نمائندے صرف اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو الیکشن کا نیا شیڈول مبارک ہو مگر غریب عوام کا کیا بنے گا؟ انکے مسائل کب حل ہوں گے۔ انکے چہروں پر مسکراہٹ کب آئے گی؟ غربت کے باعث خود کشیاں کرنے کا سلسلہ کب رکے گا؟ عوام منتظر ہے تو صرف اس بات کی کہ الیکشن ہوں ضرور مگر صرف چہرے نہیں بلکہ نظام بدلا جائے۔ ایسا نظام جس میں انکو اپنا حق ملے۔