جی ہاں ! میں بھی حیران ہوں۔ ہمارے معاشرے کا یہ ا نوکھا انداز اصلاح کیا اور کیسا ہے۔ جو آج کل دیکھا جا رہا ہے۔کہ اسلام کے نام پر نیکی کو پھیلانے کے لیے جبر ،سختی اور گولی کا استمعال کیا جا رہا ہے۔ یعنی خود ظالم بن کر اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ کوئٹہ میں آدھی آستین پہننے والی خواتین کہ زہر کے ٹیکے لگا دیئے گے۔ صرف اس لیے کہ اسلام کی تعلیم ہے کہ بے حیائی سے روکو۔ ہم نے منع کیا وہ باز نہ آئیں سو یہ عمل کرنا پڑا۔ اے اسلام کے متوالو ! پہلے خود تو اسلام کی تعلیمات کو سمجھو۔۔ پہلے خود تو اس پر عمل کو کرو پہلے خود تو ان باتوں کی گہرائی تک جانے کی کوشش کرو پھر دوسروں کی اصلاح کی طرف آو۔
اسلام تو محبت اور نرمی کی تعلیم دیتا ہے۔ کیا تم اس تعلیم سے بے بہرہ ہو۔کچھ اور نہیں تو اسوئہ حسنہ کو ہی سامنے رکھو۔ اسلام تو کہتا ہے۔ رسول پاک صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ تم نیں سے جو شحص کوئی حلاف اخلاق یا خلاف دین بات دیکھے تو اسے چاہیے کہ اس بات کو اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ لیکن اگر اسے یہ طاقت حاصل نہ ہو۔تو اپنی زبان سے اس کے متتعلق اصلاح کرے۔اور اگر اسے یہ طاقت بھی نہ ہو۔تو کم ا ز کم اپنے دل میں اسے برا سمجھ کر( دعا کے ذریعہ) بہتری کی کوشش کرے۔اور آپ فرماتے تھے۔کہ یہ سب سے کمزور قسم کا ایمان ہے۔
یاد رکھنا چاہیے۔کہ اس جگہ ہاتھ سے روکنے سے غیر اور لا تعلق لوگوں کے حلاف تلوار چلانا یا جبر کرنا مراد نہیں بلک مراد یہ ہے۔ اگر کوئی شخص اس پوزیش میں ہو۔ کہ وہ کسی بدی کو اپنے ہاتھ سے زور سے بدل سکے۔ تو اس کا فرض ہے۔ کہ ایسا کرے۔ مثلا ایک باپ اپنے بچے کو کسی غلط رستے پر پڑتا دیکھے۔ یا ایک افسر اپنے ماتحت کو یا آقا اپنے نوکر کو بدی کے رستے پر گامزن دیکھے۔ تو ا س کا فرض ہے۔ کہ اپنے جائز اقتدار کے زریعہ اس بدی کا سدباب کرے۔
Islam
یہ نہیں کہا گیا کہ تم دوسروں کو بندوق دیکھا کر اسلامی اصولوں کا پابند بنائو۔یہ نہیں کہا گیا کہ تم غیروں کو زہر کے ٹیکے لگا کر اسلام پھیلا ئو۔یہ نہیں کہا گیا کہ تم انسان سے جانور جیسا سلوک کرو۔ ہمارے دین کے دو ہی حصے ہیں۔ ایک یہ اللہ کی عبادت کی جائے۔اور اس کا جو حق ہم پر ہے۔ وہ ادا کیا جائے۔ اور دوسرے اللہ کی مخلوق سے ہمدردی کی اور خدمت کا سلوک کیا جائے۔ دین کی ساری باتیں ان ہی دو باتوں کے گرد گھومتی ہیں۔
اور اللہ کے دین کا اصل اور ضروری مقصد بھی یہی ہے باقی سب تفا صیل ہیں۔ اصل کام یہ ہے۔ کہ انسان خدا کی عبادت کرے۔ اور اس کے بندوں کی ہمدردی اور خدمت کی کوشش کرے۔ ان کو اپنی زبان سے یا اپنے ہاتھ سے کسی طرح کی تکلیف نہ دے۔ ہمارے نبی صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم کے سامنے دو عورتوں کا زکر کیا گیا ایک تو وہ جو نمازوں میں ،روزے رکھنے میں بہت آگے تھی مگر اپنے ہمسا یوں کو تکلیف دیتی تھی۔ دوسری عورت وہ جو نماز ،روزہ تو فرض کے طور پر ادا کرتی مگر ہمسایوں کی خدمت کرتی۔پنیر بنا کر،ٹکرے کاٹ کر لوگوں کو دیتی ہے۔ آپۖ نے پہلی کے متعلق فرمایا۔..’وہ آگ میں ہے۔اور دوسری کے بارے میں فرمایا وہ جنت میں ہے۔”(مسند احمد بن حنبل مسند ابی ہریرة جلد ٣)
Islam Education
کیا یہ حدیث پڑھ کے بھی آپ گولی کی زبان میں اسلام کی تعلیم دیں گے۔کیا آپ دوسروں کو تکلیف دے کر، ان کو مار کر خود جنتی بن جائیں گے؟ ہر گز نہیں۔ ہر گز نہیں۔آپ سیاست میں آ کر اسلحہ کا استعمل کریں۔یا سیاست سے باہر رہ کر۔یاد رکھیں یہ اسلام کی کوئی خدمت نہیں۔ یہ کوئی نیکی نہیں۔ یہ کوئی اسلام نہیں۔ یہ صرف آپ کی ضد ہے۔ آپ کی انا ہے۔ آپ کا خوف ہے۔ آپ کی اسلام سے دوری ہے۔۔ آپ ختم نبوت کے نام پر مرنے مارنے پر اتر اتے ہیں مگر سنت رسول پر چلنے کی توفیق نہیں۔
محمد صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم کی زندگی جو ایک کھلی کتاب ہے۔ اس میں کوئی ایک مثال ایسی نظر نہیں آتی۔کہ آپ کا تیر ایسے طور پر چلا ہو کہ کوئی بے گناہ اس کا شکار ہوا ہو۔۔ حضرت اسامہ کے واقعہ سے سب واقف ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے نفس کو بے قابو چھوڑ بیٹھے ہیں۔کس طرح اسلام کی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں؟ یعنی نیک بنو یا گولی کھا کے مر جائو۔ تحریر: فوزیہ