پارلیمانی کلاس کا خوف

Parliamentary

Parliamentary

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بہت سے جمہوری حقوق جن سے ہم آج مستفید ہو رہے ہیں پارٹیوں میں موجود نظریاتی ورکروں کی طرف سے کی جانے والی جدوجہدوں کا ہی ثمر ہیں خود جمہوریت اپنے اندر ان نظریاتی ورکروں کی طرف سے برپا انقلاب ہی کی ایک ضمنی پیداوار ہے جمہوریت کیلیئے جدوجہد اسی صورت کامیاب ہو سکتی ہے جب تک نظریاتی ورکرز اُسے آخری کامیابی تک لے کر نہیں جاتے اسے پارلیمانی کلاس کے اندر کا خوف ہی کہا جا سکتا ہے کہ جنوبی پنجاب میں اعجاز اچلانہ، قیصر مگسی، غلام حیدر تھند، احمد علی اولکھ جیسے عوامی نمائندگی کے دعویدارنون لیگی بشارت رندھاوا اور عابد انوار علوی جیسے نظریاتی ورکروں سے خوف زدہ ہیں مذکورہ بالا سیاہ ست دان اپنے سیاسی مستقبل کو ایک طرح سے تاریک دیکھ رہے ہیں ملک احمد علی جیسا شخص جو 2013ء کے عام انتخابات میں مقابلے کی دوڑ میں شامل ہی نہیں تھا وہ بھی بشارت رندھاوا اور عابد انوار علوی کی بنیادی رکنیت منسوخ کرانے میں قیادت کے چرنوں میں بیٹھا رہا۔

صوبائی محتسب کی کھلی کچہری میں اعجاز اچلانہ کے خلاف ایک بہادر خاتون پرنسپل کی طرف سے اختیارات سلب کرنے کی شکایت سے واضح ہوتا ہے کہ عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے اختیارات کی ہوس میں کہاں تک چلے جاتے ہیں تھانہ کوٹ سلطان سے لیکر کچہری تک ایسے افراد کی اکثریت دیکھنے کو ملتی ہے جنہوں نے مسلم لیگی ایم پی اے اعجاز اچلانہ کو ووٹ نہ دینے کا جرم کیا اور ناجائز مقدمات کی زد میں آگئے اعجاز اچلانہ کے اس انتقام کی کئی جیتی جاگتی مثالیں عدالتوں میں ہمیں ہر روز ملتی ہیں اسی طرح پی پی 264میں بھی لیگی ایم پی اے قیصر مگسی کے انتقام کی داستانوں سے چوبارہ اور نواں کوٹ کے صحرا سلگ رہے ہیں لوگوں سے ان کی اراضی ہتھیانا موصوف نے اک عرصہ سے وطیرہ بنا رکھا ہے تھانہ چوبارہ کے کئی ایس ایچ اوز موصوف کے بے دام غلام رہے جو فرسٹ انوسٹی گیشن رپورٹ کے رجسٹر اپنے کالے کرتوتوں سے کالے کرتے رہے۔

نظریات ہمیشہ سے پارلیمانی کلاس کیلئے سیاست کے میدان میں خوف کا عنصر رہے ہیں خواجہ سعد رفیق ایک شادی میں آیا تو عابد انوار علوی اور بشارت رندھاوا کا ذکر اُس نے کیا مگر اپنی جماعت کے ایم پی ایز کے بارے میں اُس کی زبان بھی ساتھ نہ دے سکی خواجہ سعد رفیق، خواجہ رفیق شہید جیسے بڑے آدمی کا بیٹا تو ہے لیکن وہ خواجہ رفیق کسی طرح نہیں بن سکتا خواجہ رفیق شہیدنے تو چہرے نہیں نظام کو بدلو، لوٹ کھسوٹ کے راج کو بدلو کے نعرے کے ساتھ اپنی جان دے دی مگر خواجہ سعد رفیق تو لوٹ کھسوٹ کے راج میں حصہ دار بن گیا وہ اُس نظام کے ساتھ کھڑا ہے جس میں محض چہرے بدلتے ہیں مگر جانے کیوں نظریاتی ورکرز آج بھی پارٹی میں خواجہ سعد رفیق کی طرف دیکھتے ہیں شاید اس لیئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے دکھوں کا مداوا خواجہ سعد رفیق کریں گے مگر بشارت رندھاوا اور عابد انوار علوی کے دکھ کا مداوا تو خواجہ سعد رفیق بھی نہ کرسکا وہ پارٹی قیادت کو یہ بھی باور نہ کراسکا کہ جس آمر نے تمہیں زبردستی جلاوطن کیا اُس کے خلاف کھڑے ہونے کی جرات تو جنوبی پنجاب میں صرف بشارت رندھاوا اور عابد انوار علوی نے کی تم جلاوطن ہوئے تو بشارت رندھاوا کے گھر کی لاش ایک آمر کی آمریت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے گری جن لوگوں کے کہنے پر تم نے قربانیوں کے تسلسل اور نظریات کی گردن پر چھری پھیری وہ تو اُس آمر کی جھولی میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔

South Punjab

South Punjab

کل کلاں پھر کسی مشرف کے انتظار میں اُس کی دہلیز پر سجدہ ریز ہوکر اُسے اپنی وفائوں کا یقین دلانے کیلئے بے چین ہوں گے جنوبی پنجاب میں کچھ بھی ہو عابد انوار علوی اور بشارت رندھاوا کا مزاحمتی کردار زندہ ہے پرویز الٰہی نے اپنے دور اقتدار میں جنوبی پنجاب کا دورہ کیا تو اُس نے بشارت رندھاوا اور عابد انوار علوی کی ن لیگ کے ساتھ بے لوث وفائوں کی داستانیں سنیں پارٹی کے ساتھ جڑے ہوئے نظریات کی زنجیر توڑنے کیلئے بشارت رندھاوا کو ناجائز مقدمات کی بھٹی سے آبلہ پا گزارا گیا مگر پارٹی کے ساتھ جُڑی آہنی زنجیر کی ایک کڑی بھی نہ ٹوٹی ہم نے ورکروں کے احتجاج کی شدت 2006میں بھی دیکھی۔

جب ذوالفقار کھوسہ نے بشارت رندھاوا کی ضلعی جنرل سیکریٹری شپ ختم کرنے کے آرڈرز صادر فرمائے اس عدم مشاورت کے فیصلہ پر جنوبی پنجاب کے ورکرز پھٹ پڑے تب مجھے مرحوم غلام حیدر وائیں یاد آئے جنہوں نے ایک ملاقات میں بشارت رندھاوا کے بارے میں یہ ریمارکس دیئے تھے کہ ”جنوبی پنجاب میں اگر کسی نوجوان کو مسلم لیگ ن کا ہراول کہا جا سکتا ہے تو وہ صرف بشارت رندھاوا ہے۔

تحریک نجات کے دوران بشارت رندھاوا پر مقدمات کا تسلسل چلا پارٹیوں کے اندر نظریات مفاد پرست جاگیردار، سرمایہ دار، نو دولتیوں اور ان کے گماشتوں کے منہ پر طماچے بن کر برستے ہیں صرف اس لیئے کہ لوٹ مار کی خاطراس طوائفہ کے لباس کی طرح پارٹیاں بدلنا ان کی سرشت میں شامل ہوتا ہے جو بازار میں بن سنور کر گاہککیلئے محو ِ انتظارہو تی ہے۔

مجھے یہ مقدمہ راجہ اشفاق سرور کی عدالت میں پیش کرنا ہے کہ ورکرز تو نظریات کی توانائی پر جیتے ہیں کب بھلا پارٹی قیادت سے صلے میں زرو جواہر کی طلب رکھتے ہیں نظریاتی ورکر وں کیلئے طلب ہوتی ہے تو محض اتنی کہ قیادت کی نظر التفات بے نیازی میں نہ بدلے قربانی کے بدلے اتنا تو ہو کہ ہمیں تسلیم کیا جائے نظر اور دل میں ہمیں ہمارا مقام دیا جائے پارٹی قیادتوں پر جب کڑے وقتوں میں ترکش کا کوئی تیر نہیں بچتا تو بشارت رندھاوا اور عابد انوار علوی جیسے نظیریاتی اور باوفا ورکر ز ترکش کے آخری تیر ہوتے ہیں۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک