اسلام آباد میں ایک مشہور افغانی شخصیت ملا فضل للہ افضانستان سے اسلام آباد میں محرم الحرام میں تشریف لاتے ہیں اور ان کو انتہاہی سکیورٹی سے ڈھکے شہر اسلام آباد میں شدت پسند عناصر کی جانب سے قتل کر دیا جاتا ہے اور اس قتل کے کچھ ہی منٹ کے بعد ریڈیو قابل پوری دنیا میں ملا فضل کے قتل کی خبر سناتا ہے اور صرف خبر ہی نہیں بلکے زخمی ہو نے والوں کے لوگوں کی تعداد اور ان کے نام بھی بتاتا ہے۔
پا کستا نی ٹی وی چینلز کو ا س و ا قعے کے با ر ے میں شا ید کئی گھنٹو ں بعد پتہ چلتا ہے کہ مر نے والا کو ن تھا ز خمی کتنے تھے ۔ا و ر ا ن کے نا م و غیر ہ و غیر ہ ۔ا و ر ا س سے بڑی حیر ت کی با ت یہ ہے کہ ملا فضل کی لا ش ہسپتا ل منتقل کی جا تی ہے اور کچھ نہ معلو م مسلحہ لو گ ہسپتا ل آ تے ہیں ا ور اس کی لا ش کو ہسپتا ل سے ا ٹھا کر میر ا ن شا ہ بھی پہہنچا د یتے ہیں ا و ر ا نتظا میہ ہمیشہ کی طر ح معمول کے مطا بق خا مو ش د کھا ئی د یتی ہے محر م کے شر و ع میں ہی شد ت پسند پا کستا ن مخا لف پا کستا ن د شمن گر و ہو ں کی جا نب سے کیا جانے والا یہ واقعہ یقینامحر م الحر ا م میں ا من تبا ہ کر نے کی پہلی سا ز ش ہو سکتی تھی۔ و قت گزر تا چلے جا تا ہے د س محر م کی د و پہر تک پو را ملک محرم پر ا من گزرنے پر رب کا شکر ا دا کر رہا ہو تا ہے تما م مذ ہبی ا ور سیا سی قا ید ین بھی اس صو ر تحا ل میں ا طمینا ن محسو س کر تے ہیں کہ ا چا نک دس محر م کو ر ا جا با زار کے قر یب دورانِ نما ز جمعہ ذوالجناح کا جلو س پحنچتا ہے ا ور جلو س کے د و نو ں ا طراف کچھ شر پسند لو گ شامل ہو جاتے ہیں۔
مسجد کے دونو ں ا طر ا ف سے یہ شدت پسند گالی گلو چ کا سلسلہ شر و ع کر دیتے ہیں کچھ لو گ صہا بہ کی شا ن میں نعوذباللہ گستا خی بھی کرتے ہیں ا و ر اسی دوران پتھر ا و بھی شر و ع ہو جا تا ہے حا لا ت خرا ب ہو نے لگتے ہیں مو قع پر موجو د پولیس ا ہلکا ر بے بس نظر آتے ہیں اور جلو س کے لیے علیحد ہ ر ا ستے بنا نے میں بھی بے بس نظر آ تے ہیں اور اسی بے بسی کے عا لم میں د س سے ز ا ئد شد ت پسند لو گ پو لیس ا ہلکا ر و ں سے ا سلحہ چھینتے ہیں فا یر نگ کرتے ہیں اور دس کے قریب لو گو ں کو قتل کر کے بہت ا یما ند ا ری سے ا سلحہ وا پس بھی پو لیس کو واپس کرتے ہیں ڈیوٹی پر موجو د کئی پو لیس انسپیکٹز ہا تھ جو ڑتے نظر آتے ہیں کہ خد ا ر ا ا من کو پامال مت کر و ۔لیکن با ت صر ف گو لیاں مارنے پر ختم نہیں ہو تی ۔ا ب یہ شد ت پسند ا پنے سا تھ لا ے ہو ے پٹر و ل ا و ر کمیکلزکو ا لفیصل ما رکیٹ کی دواروں پر چھڑکتے نظر آتے ہیں پوری ا لفیصل ما ر کیٹ جل جا تی ہے اربوں ر و پے کا نقصا ن ہو تا ہے۔
مسجد و مدرس سمیت کئی امام با ر گا ہو ں کو بھی نظر آتش کیا جا تا ہے ا و ر مد ر سہ کے 50سے ز ائد طلبا لاپتہ ہو جاتے ہیں اس واقعے کو شیعہ سنی فسا د کا نا م دیا جا تا ہے ا یک خبرکے مطابق 35 سے زاہد لوگ مارے گئے ہیں اور اس واقعہ کو مسجد کے نما زیو ں اور جلو س میں آنے والو ں کے درمیان لڑائی کہا جا تا ہے۔
Tragedy Rawalpindi
نہیں قا ر ہین یہ شیعہ سنی لڑا ئی نہیں تھی ا و ر نہ ہی مسجد سے آنے وا لے نما ز یو ں کا ا س سے کو ئی لین د ین تھا ا ور نہ ہی راجا مارکیٹ کے تاجر وں کا اس سے کوئی لین دین تھا ۔اور نہ ہی زخمی ہو نے والے میڈیا نمایندگان کا کو ئی قصو ر تھا ۔اور نہ ہی تبا ہ ہونے والی مسجد و مدر سہ کی ا نتظا میہ کا کو ئی قصو ر تھا یہ جلو س پچھلے 40سال سے ہر سا ل کی طر ح ہیا ں سے گزرتا ہے یقینا اس میں کو ئی ا ورہی شدت پسند ہی ملوث ہیں جن کے با رے میں آگے چل کر بات کر و ں گا۔ ر ا و لپنڈی کے بعد چشتیا ں کی با ت کر تے ہیں چشتیا ں کے حالات خر ا ب ہو نے کی بڑی وجہ وہاں پرجلوس میں ہو نی والی غیر ر سمی تقر یر تھی جس میںایک مقامی ڈاکٹر کی دعو ت پر آنے والے ذاکر کی جانب سے صہابہ کی شا ن میں دوارن جلوس شر پسند تقر یر کی جا تی ہے جس میں صہابہ کی شان میں گستاخانہ الفا ظ کاسہا ر ا بھی لیا جاتاہے۔
اسی تقر یر پر مقا می آبادی کے لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں اور وقوعہ چشتیا ں اپنے سا تھ ہا ر و ن آبا د کو بھی ا پنی لپیٹ میں لے لیتا ہے قا ر ین ملافضل کی مو ت سے لیکر ہا ر ون آباد تک کے تما م و ا قعا ت نے بہت سے سو ا لو ں کو پید ا کیا ہے قا ر ین کیا ان تما م و قعوں سے قبل intellegence اداروں نے سر کا ری مشینر ی کو آ گا ہ نہیں کیا تھا بالکل کیا تھا لیکن پھر بھی ملا فضل کا قتل ہو نا حیر ا نگی کی با ت ہے سانحہ روالپنڈی میں کیسے ا جنبی لو گ جلو س میں د ا خل ہو تے ہیںکیسے بلیک واٹرکے جھنڈے پکڑے لوگ داخل ہو گئے۔ DPO,SP’S,ACO,DCO,خفیہ ا د ا روں کی نشا ند ہی کے باوجو د کیو ں نہیں مو قع پرمو جود ہوتے ہیںاس جلو س میں آگ لگا نے کے لیے کمیکل کہا ں سے آگیے۔پو لیس کے لوگو ں کو مو قع پر ایکشن لینے کی ا جازت کیو ں نہیں دی گئی ۔میڈ یا کے نما یند ں کو کیو ں تشد د کا نشانہ بنا یا گیا۔
ضلع بہا ولنگر میں کیو ں نہیں پہلے ہی سے ذاکر حضر ا ت کو شر پسند تقر یر سے روکا گیا۔چشتیا ں میں کیو ں شر م نا ک تقر یر ہوئی۔کیوں نہیں حکو مت بہت سے عرب ممالک کی طرح علما ء اور ذاکر وں کو سرکاری تقریر میہاکرتی۔کیا ان ذاکر صا حب کو حکو مت نے ا پنی تحو یل میں لیکر ان سے شر پسند تقریر کے بارے میںدریافت کیا۔یقینا غیر ملکی ا یجنسیا ں پاکستان کو آتش فشاںبنانے میں اپنا پو راپورا کردار ادا کر رہی ہیں۔ یقینا یہ وہ تمام سو ا لا ت ہیں جن کا جواب ہم تما م لو گ حکو مت سے ما نگتے ہیں۔
یہ یقینا شیعہ سنی ا ختلا فا ت نہیں بلکہ پا کستا ن مخالف شدت پسند لوگوں کی پاکستان سے جنگ ہے ہمارے سیکورٹی اداروں کو ان دشمنوں کو ڈھونڈنا ہو گا جو ہمارے میں ہی رہ کر ہمیں ڈستے رہتے ہیں جو کبھی شیعہ اور کبھی سنی کی شکل میں فساد پھیلاتے نظر آتے ہیں۔ شاید د فعہ 144بھی اس مسئلے کا حل نہ ہو اور نہ ہی ڈبل سواری پر پابندی اس مسئلے کا حل ہواس مسئلہ کا حل ہے تو وہ صرف پاکستان دشمن قوتوں کا پاکستان سے خاتمہ ہے کیوںکہ صہابہ کی شان میں گستاخی کوئی مسلمان تو نہیں کر سکتا مسجد مدرسہ یا امام بارگاہ کوئی مسلمان تو نہیں جلا سکتا۔ کیوںکہ اِسلام توامن کا گہوارہ ہے اِسلام تو امن، اخوت، اور بھائی چارہ کے سبق دیتا ہے۔
حیسنیت کے تقاضے بھول بیٹھا ہوں یزید ناچے پھرتے ہیں میری گلیوں میں
Abdul Rauf Chauhan
تحریر : عبد الروَف چوہان han201259@yahoo.com chou email: