ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں۔ آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ پچھلے چند سالوں کے دوران ملک میں الیکٹرونک انقلاب برپا ہوا جس نے سب سے زیادہ نوجوان نسل کو متاثر کیا۔ زندگی انتہائی مصروف اور کوئیک (quick) ہو گئی جس کے باعث معاشرے میں مطالعہ کا رجحان تقریباً دم توڑ گیا۔
کتابوں سے محبت کرنے والے اور کتابیں پڑھنے والے مشکل سے ملنے لگے۔ شاید اسی وجہ سے عوام کی عقلی اور شعوری سطح خاصی پست رہ گئی اور وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی مصروفیات اور ترجیحات بھی تبدیل ہو گئیں۔ آج کے نوجوان کی زندگی تیس برس پہلے کے جوان کی نسبت یکسر مختلف ہے۔ چونکہ اب میڈیا ،شوشل میڈیا، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ زندگی کالازمی جزو بن گئے ہیں جن کے بغیر زندگی بنجر اور بے رنگ دکھائی پڑتی ہے۔ انٹرنیٹ، الیکٹرونکس گیمز، فلمز، ڈراماز اور چیٹنگ کا حد سے زیادہ استعمال نئی نسل کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔ ان نقصانات میں کتابوں سے دوری پیدا ہونا سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
انسان کی عقلی اور فکری صحت کے لیے مطالعہ انتہائی اہم ہے۔یہ انسان کی قوت تخیل کو مضبوط کرتا ہے، علم میں اضافہ کرتا ہے اور فرد میں ذہنی وسعت پیدا کرتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں مطالعہ کا رجحان بہت کم ہو گیا ہے اور نوجوان نسل میں تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ عظیم معاشروں میں عقل دانش رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں اور عقل و دانش کسی دماغ میں خوبخود وارد نہیں ہوئی بلکہ یہ کتابوں میں مضمر ہوتی ہے جس مطالعہ سے تلاش کیا جا تا ہے۔خاکسار کی ذاتی رائے ہے کہ کتابوں سے محبت ضروری ہے چونکہ دنیا کی کوئی کتاب فضول نہیں ہوتی۔اور محبت کا تقاضا زیادہ سے زیادہ مطالعہ ہی ہے۔
پاکستان کی آدھی سے زائد آبادی خواندہ ہے۔ تعلیم یافتہ افراد میں سے اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو اپنے اپنے شعبے میں چند مخصوص کتابوں کو رٹ کر ڈگری حاصل کر لیتے ہیں۔مگر انہیں ذہین یا زیرک نہیں کہا جاسکتا۔عصر حاضر کے ایک مشہور لکھاری کا خیا ل ہے کہ” جو شخص ہر روزکم از کم تین گھنٹے مطالعہ نہیں کرتا اسے خود کو پڑھا لکھا کہنے کا کوئی حق نہیں،اس کی تمام ڈگریا ں فضول ہیں ”۔اگر اس آئینے سے دیکھا جائے تو پورے ملک میں دس فیصد سے بھی کم افراد کوپڑھالکھا کہا جا سکتا ہے۔ بنیادی طور پر اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ان میں سب سے بڑی وجہ کتابوں کانہ ہونا ہے۔ پاکستان میں ہر سال لاکھوں گاڑیاں نئی بنتی ہیں اور لاکھوں نئے گھر تعمیر ہو تے ہیں۔لیکن پورے ملک میں پچھلے کئی سالوں کے دوران کوئی بڑی لائبریری تعمیر نہیں ہوئی۔اس وقت 18کروڑآبادی کے ملک پاکستان میں صرف 90بڑی لائبریاں ہیں۔اور ان میں سے 20سے زائد یونیورسٹیوں کی ملکیت ہیں جہاں بیرونی طالب علم یاعام آدمی کی رسائی ممکن نہیں۔ باقی تمام لائبریریاںملک کے چند بڑے شہروں میں واقع ہیں جن سے صرف متعلقہ شہری ہی استفادہ کر سکتے ہیں۔ان میں موجود کتابیں پرانی اور بوسیدہ ہو چکی ہیں۔
Library
اکثر لائبریوں ایسی ہیں جہاں برسوں تک کوئی نئی کتاب نہیں آتی۔ آج امریکہ کی صرف ایک لائبریری میں ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد کتابیں موجود ہیں جبکہ پاکستان کی سب سے بڑی لائبریری میں صرف 4 لاکھ کتابیں ہیں اور ان میں بھی اکثریت قدیم کتابوں پر مشتمل ہے۔لہٰذا ملک میں لائبریریاں نہ ہونے کی وجہ سے قارئین کو ہر کتاب خریدنا پڑتی ہے جو ہرقاری کے بس میں نہیں۔ کتابوں کی قیمت کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان میں کتابوں کی قیمت دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ یہاں بازار میں موجود ایک عام کتاب کی قیمت عموماً ایک مزدور کی پورے دن کی اجرت کے برابر ہوتی ہے۔اسی وجہ سے مطالعہ کو ایک مہنگا شوق سمجھا جاتا ہے۔ مگر میر ے نزدیک یہ مہنگا شوق نہیں بلکہ مہنگی ضرورت ہے۔
پوری دنیا کے مقابلے بھارت میں سب سے سستی کتابیں ملتی ہیںشاید اسی لیے وہاں کتابیں پڑھنے والوں کی شرع دوسرے کئی ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔اور وہاں کتاب سازی کی صنعت کو فروغ مل رہا ہے۔ایک عرصہ پہلے حکومت پاکستان نے کتابوں کی اشاعت اور ترسیل کے لیے چند سرکاری ادراے قائم کیے تھے جہاں کتابیں قدرے سستے داموں میسر تھیں۔مگر اب وہ زبوں حالی کا شکار ہیں ۔ان میں سے چند ایک بند ہوگئے ہیں ۔ مگر جو کام کر رہے ہیں وہ بھی تقریباً کام نہیں کر رہے۔ یعنی ان میں قدیم طرز پر کتابیں تیار کی جاتی ہیںجو اکثر قدیم مصنفین کی ہی ہوتی ہیں۔سرکاری اداروں کی ایسی ناگفتہ بہ حالت کے باعث نئے لکھنے والے اکثر غیر سرکاری (Private)چھاپہ خانوں کا رخ کرتے ہیں۔جہاں سے ملنے والے کتابیں انتہائی مہنگی ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی پہنچ میں نہیں ہوتیں۔ہم حکومت کی بات نہیں کریں گے چونکہ آج مفاہمت زدہ حکومت خود اپنے(siviwal)میں ہے وہ اپنے پانچ سال ہی پور ے کر لے تو بڑی بات ہو گی۔
اگر واقع ہی خود ہمیں اس المیے کی سنگینی کا اندازہ ہے اور ہم اپنے ملک اور اپنی نئی نسل کے مستقبل کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں اپنے گھر وں میں اورمعاشرے میں مطالعہ کے رجحان کو فروغ دینا ہوگا۔چونکہ کبھی بھی ایک کم عقل اورجاہل معاشرہ ایک ذی شعور اور صاحب علم معا شرہ کے برابر نہیں ہو سکتا۔ہمارا مذہب بھی ہمیں علم کی جستجو کا درس دیتا ہے اور تمام مغربی مفکرین نے بھی کتاب سے محبت اور مطالعہ کی عادت کو ضروری سمجھاہے اور اسے زندہ معاشرے کی علامت قرار دیا ہے۔ شاید اسی لیے اہل مغرب ہرشعبہ فکر میں ہم سے آگے ہیں۔ مغربی دانشوروں نے کتاب کی اہمیت میں جو تاریخی جملے کہے ان میں سے چند نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک ممتاز مغربی اسکالر کا کہنا ہے کہ”Books give a soul to the universe, wings to the mind, flight to the imagination and lite to every thing”اسی طرح “Damien Echols”کہتاہے کہ “Without book, i would have gone insane long ago”مشہور ماہر تعلیم”Gilbert hight”نے کتاب کی تعریف میں کہا”There are not book, lumps of lifeless paper, but mind alive on the shelves”۔