ہم اور اسلام

Quran Pak

Quran Pak

اسلام امن، رواداری اور بقائے باہم کا درس دیتا ہے لیکن یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے مذہب کو پر تشدد، عدم روادار اور متعصب خیال کیا جا رہا ہے۔ اس جھوٹے تصور اور مفروضہ کے ذمہ دار خود ہم مسلمان ہیں۔ دیگر مذاہب کے لوگ قرآن و حدیث کو نہ سمجھتے ہیں نہ پڑھتے ہیں وہ تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا طرز عمل کیا ہے اور وہ کیسا برتاؤ کرتے ہیں ان کا کردار کیا ہے جس سے اسلام کی منفی تصویر پیش ہوتی ہے۔

یہ بھی بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ معاشرے میں جھوٹ، دھوکا فریب، نقلی ادویات، منشیات، تشدد، دہشت گردی، انتہا پسندی، اغوا، زنا،جبری شادیاں، بناوٹی و نقلی شادیاں اور بد اخلاقی جیسی جتنی بھی برائیاںہیں وہ بلا واسطہ یا بالواسطہ مسلمانوں میں ہی ہیں۔یہاں یہ بات کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ یہ ساری خراب عادتیں اور برائیاں صرف مسلمانوں میں ہی ہیں تاہم ان میں سے زیادہ تر برائیاں مسلم معاشرہ میں ہی ہیں۔ نیزکچھ یورپی ملکوں میں خاص طور پر جنوب ایشیائی ملکوں کے مسلمانوںمیں جرائم کی شرح کافی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ میں عیدالفطر کے دوسرے دن ایک مقامی دکان پر گیا۔اس دکان کامالک ایک عیسائی ہے۔اس کا انداز انتہائی دوستانہ ہے۔ وہ ہم سب سے بڑی محبت اور خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے اور کافی احترام کرتا ہے۔

جیسے ہی میں اس دکان میں داخل ہوا ایک نوجوان ملازم نے مجھے عید کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ”انکل : عید مبارکَ میں نے جواباً مسکراتے ہوئے شکریہ کہا اور کاؤنٹر کی جانب بڑھ گیا۔دکان مالک نے کہا ”بھائی صاحب : آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو عید مبارک۔ اس کے بعد اس نے مجھے کچھ چاکلیٹ دیں جو اس نے عید کی خوشی میں اپنے تمام گاہکوں خاص طور پر مسلمانوں کو پیش کرنے کے لیے ایک ٹرے میں سجا رکھی تھیں۔

Prophet Muhammad PBUH)

Prophet Muhammad PBUH)

میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور ایک چاکلیٹ لے لی۔ اس نے ہمارا مقدس مہینہ رمضان شروع ہوتے ہی اس کی بھی مبارکباد دی تھی اور پھر عید الفطر کی بھی مبارکباد دی۔ ہم مسلمانوں کی طرح عیسائی بھی اپنے مذہبی تہوار مناتے ہیں لیکن کچھ علماء دین ہم سے یہ کہتے ہیں کہ عیسائیوں کو کرسمس مبارک نہ کہو اور غیر مسلموں کے مذہبی ایام میں ان کی خوشیوں میں شامل نہ ہو۔ اپنے فلسفے کی دلیل میں وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر میں کسی عیسائی کو کرسمس مبارک ہو کہتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں ان کے مذہب میں اس دن کی اہمیت کا اقرار و اعتراف کر رہا ہوں۔ میں اس تشریح و توضیح سے اتفاق نہیں کرتا۔ جب کوئی عیسائی مجھے یا کسی اور مسلمان کو عید مبارک کہتا ہے تو وہ توحید کا اور حضور کے آخری نبی ہونے کا اقرار تو نہیں کرتا۔

اسی طرح جب میں کسی عیسائی پڑوسی کو کرسمس مبارک کہتا ہوں تو نہ تومیں عیسائی مذہب کو قبول کرتا ہوں اور نہ ہی کرسمس کو، جو عیسائی مذہب کی رو سے خوشیوں کا تہوار ہے، مذہبی حیثیت و اہمیت کا اعتراف کرتا ہوں۔ اسلام اور اس کے اثرات کی اس مسخ شدہ تشریح کی وجہ سے ہی میں غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں کی خوشیوں میں شامل نہیں ہوتا اور اس وقت تو مجھے بہت ہی پشیمانی اور شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے جب وہ میر ے مذہبی تہوار پربڑے جوش و خروش اور محبت کے ساتھ لہک کر مجھے عید کی مبارکباد دیتے ہیںاور ساتھ ہی مٹھائی اور چاکلیٹ بھی پیش کرتے ہیں۔میں عیسائی دوستوں اور پڑوسیوںسے اس روز ملاقات نہیں کرتا جس دن ان کے تہوار ہوتے ہیں کہ کہیں میں انہیں ان کے تہوار کی مبارکباد دے کر گنہگار نہ بن جاؤں۔ تاہم ان کے تہوار کے دوسرے دن میں ان سے یہ ضرور معلوم کرتا ہوں کہ انہوں نے تہوار کا کیسا لطف اٹھایا۔ کیونکہ ایسا کہنا مبارکباد دینایا انہیں خوشیوں کی دعائیں دینا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے کوئی گناہ لازم ہوتا ہے۔میرا دل و دماغ اسے تسلیم نہیں کرتا اور میں ا ندر سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ ایسا سلوک اور درس غلط ہے کیونکہ اس سے ہم مسلمان غیر سماجی اور بد اخلاق سمجھے جاتے ہیں۔

مزید بر آںاس سے ایک ہی شہر و علاقہ میں رہنے اور معاشرے کا ہی ایک حصہ ہونے کے باوجود مسلمان باقی لوگوں کے لیے اجنبی بن کر رہ جاتا ہے۔ دوسری جانب حضور ۖنے فرمایا تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں یعنی حسن اخلاق سے پیش آتا ہے۔انہوں نے اس بات کی بھی تعلیم دی کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا احترم کرو اور امن و ہم آہنگی کو فروغ دو۔اگر کوئی غیر مسلم مجھے عید کی مبارکباد دیتا ہے تو وہ اپنے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے اور میری خوشیوں میں شامل ہوتا ہے۔ بحیثیت مسلم اور اچھا انسان ہونے کے ناطے مجھے اس کا جواب اور بھی اچھے اخلاق اور عمدہ سلوک سے دینا چاہئے۔ لیکن انہیں مبارکباد نہ دے کر میں کس بات کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔ کیا میں یہ پیغام نہیں دے رہا کہ ہم مسلمان سماجی نہیں ہیں اور سول سوسائٹی کی قدروں اور طرز عمل کو پسند نہیں کرتے۔

ہم ایسا مظاہرہ کر کے کیا یہ باور نہیں کرارہے کہ مسلمان نسل پرست ہے او ر ہم دیگر مذاہب والوں کے ساتھ ہنسی خوشی اور امن وامان کے ساتھ رہنے کی صلاحیتوں اور فن سے عاری ہیںکیا ہم یہ پیغام نہیں دے رہے کہ ہمارا مذہب اور ہماری ثقافت دونوں ہی اتنے کمزور ہیں کہ وہ دیگر مذاہب سے بری طرح متاثر ہو جائیںگے اور نتیجہ میں ہم اپنے مذہب اور نوجوانوں کے تحفظ کے لیے ایک ہی معاشرے میں رہتے ہوئے بھی نسل پرستی کو فروغ دے رہے ہیں؟نسل پرستی کا یہ رویہ غلط فہمیوں اور نفرت کو جنم دے رہا ہے۔ اور یہ پیغام جا رہا ہے کہ اسلام بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔

اسلام امن، رواداری اور بقائے باہم کا علمبردار اور داعی ہے اور معاشرہ میں تقسیم و انتشار کی شدت سے مخالفت کرتا ہے۔در حقیقت یہ واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ خاندانوں اور معاشرہ میں پھوٹ ڈالنا اور انتشار پھیلانا شیطان کا کام ہے۔میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ عام طور پر کسی بھی متنازعہ موضوع پر لکھنے سے قبل خوب چھان پھٹک کر نے کی عادت کے باوجود اس موضوع پر میں نے کوئی ریسرچ نہیں کی ہے اس لیے اس موضوع پر میری معلومات وسیع اور مکمل نہیں ہیں، اور میری خواہش ہے کہ کوئی میری رہنمائی کرے تاکہ میں اپنے خیالات و نظریات میں مناسب تبدیلی کر سکوں۔کیا کوئی عالم و فاضل مجھے اور دوسروں کو اس موضوع پر معلومات بہم پہنچا کر ہمیں روشنی دکھا سکتا ہے۔

M.A.TABASSUM

M.A.TABASSUM

تحریر: ایم اے تبسم (لاہور)
مرکزی صدر،کالمسٹ کونسل آف پاکستان”CCP”
email: matabassum81@gmail.com,
0300-4709102