دس محرم کو پنڈی میں جو کچھ ہوا اس افسوسناک پر سوشل میڈیا پر جو بحث چل رہی ہے وہ اسے بھی زیادہ خطرناک ہے، سوشل میڈیا کی ویب سائٹس فیس بک، ٹویٹر وغیرہ پر ایک طرف جہاں دارالعلوم تعلیم القرآن کی حمایت میں بحث جاری ہے انکے ساتھ اظہار ہمدردی کی جار ہی ہے۔ جانوں کے ضیاع، املاک کے نقصان اور دینی کتب کے جلنے پر افسوس کے ساتھ ساتھ انتقام کی باتیں بھی ہو رہی ہیں تو دوسری جانب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جلوس پر پتھرائو کیا گیا جس کی وجہ سے جلوس والے مشتعل ہو گئے۔
حقیقت کیا ہے؟ عدالتی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کے آنے کے بعد ہی واضح ہو سکے گا۔لیکن اس واقعہ نے پورے ملک کو فسادات میں جھونک دیا۔ ملتان، چشتیاں، بہاولنگر میں بھی حالات خراب ہونے لگے مگر انتظامیہ نے صورتحال پر قابو پا لیا۔ کوہاٹ میں بھی گڑ بڑ ہوئی جہاں کرفیو لگا دیا گیا۔ حکومت جہاں مختلف شہروں میں حالات کو قابو میں رکھنے کے لئے اقدامات کر رہی ہے وہیں سوشل میڈیا پر چلنے والی پوسٹوں پر بھی حکومت نے نوٹس لیا ہے اور سوشل میڈیا پر فرقہ واریت سے متعلق مواد جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔
سانحہ پنڈی کے بعد راولپنڈی میں موبائل دو روز کے لئے بند رہے ۔علاقے میں کرفیو تھا۔ کسی کے ساتھ رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ تعلیم القرآن میں پڑھنے والے طلباء اور وہاں موجود دیگر عملے کے بارے میں انکے لواحقین پریشان تھے۔ کیونکہ اطلاعات کا کوئی نظام حکومت کی طرف سے قائم نہیں کیا گیا تھا نہ تو زخمیوں اور سانحہ میں شہید ہونے والوں کا پتہ چل رہا تھا اور نہ ہی بچنے والوں کا کسی سے کوئی رابطہ ہو رہا تھا۔ حکومت آٹھ لوگوں کے مرنے کی خبریں دے رہی تھی تو سوشل میڈیا پر کہیں پینتالیس، کہیں ساٹھ،کہیں اسی لوگوں کے جاں بحق ہونے کی بحث جاری تھی۔
صرف بحث ہی نہیں ایک دوسرے کے خلاف نعرے اور انتقام کی باتیں و دعوے بھی ہو رہے تھے۔ دارالعلوم تعلیم القرآن کی مسجد کے امام کا تعلق تلہ گنگ کے شہر ٹمن سے تھا۔سانحہ کے دوسرے روز ٹمن میں یہ خبر پھیل گئی کہ تعلیم القرآن کے امام اور نائب ناظم قاری طاہر سعید کو ذبح کر دیا گیا ہے جبکہ انکی بیوی اور ایک چھوٹی بچی کو زندہ جلا دیا گیا ہے۔ٹمن میں اس خبر کے پھیلنے کے بعد مقامی میڈیا تک بات پہنچی۔ سارے شہر میں اس خبر کے پھیلنے سے سوگ کا سما ں تھا۔اس خبر کی تصدیق کہیں سے بھی نہیں ہو رہی تھی۔ قاری طاہر سعید کے گھر والوں بھی پریشانی کے عالم میں تھے۔ موبائل بند ہونے کی وجہ سے رابطہ منقطع تھا۔ ٹمن سے مقامی علماء کرام بھی اس افوان نما خبر سننے کے بعد پنڈی کی طرف روانہ ہوئے لیکن وہاں کرفیو تھا جس کی وجہ سے وہ تعلیم القرآن تک نہیں پہنچ سکے۔ ظہر کے وقت سے یہ افواہ چلی۔
Social Media
رات عشاء کے وقت قاری طاہر سعید نے ایک پی سی او سے اپنے ٹمن کے ہی شاگرد حافظ سمیع اللہ سے فون پر بات کی اور کہا کہ میں بمعہ فیملی محفوظ مقام پر خیریت سے ہوں۔ مختصر سی گفتگو کے بعد ٹمن میں تھوڑا سکون ہوا۔ اگر حکومت اطلاعات کا موثر نظام بناتی تو شاید لوگ اس طرح پریشان نہ ہوتے یہ تو صرف ایک شہر کا حال تھا باقی جو لوگ وہاں تعلیم القرآن میں موجود تھے انکے اہلخانہ کی کیا کیفیت ہو گی؟ سوشل میڈیا پر بحث اس تصادم کو مزید بھڑکا رہا ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے خلاف کارروائی انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ذریعے تشہیر سے متعلق موجود قانون کے تحت کی جائے گی۔ وفاقی حکومت نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ سوشل میڈیا کی متعلقہ ویب سائٹس پر فرقہ واریت پر مبنی مواد جاری کرنے والوں کے خلاف کریک ڈان کیا جائے۔ حکومت نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو تمام کمپنیوں کے ذریعے موبائل فون کے ڈیٹا کی نشاندہی کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وزارت داخلہ نے نفرت انگیز اور بے بنیاد مواد سوشل ویب سائٹ سے ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت بھی کی ہے۔ وزارت انفارمیشن و ٹیکنالوجی کا کہنا ہے ملک میں سائبر کرائم کا کوئی قانون موجود نہیں۔ مشرف حکومت نے پاکستان الیکٹرانک کرائم آرڈیننس 2007ء جاری کیا۔ سائبر کرائم آرڈیننس ایکٹ کے تحت آئی ٹی کورٹس اور آئی ٹی ججز مقرر کئے جانے تھے۔ بل 31 دسمبر 2007ء کو اسمبلی میں پیش کیا گیا مگر قانون کا حصہ نہ بن سکا، ذرائع کے مطابق اس وقت سائبر کرائم ضابطہ فوجداری کے تحت عمل میں لایا جا رہا ہے۔
ایک طرف ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کا دائرہ کار محدود ہے تو دوسری جانب ٹیلی گراف ایکٹ میں سائبر کرائم کی سزائیں موجود نہیں ہیں۔سانحہ پنڈی کے بعد ملک گیر احتجاج بھی جاری ہے۔ حکومت امن و امان کے قیام کے لئے کوششیں کر رہی ہے۔ دفاع پاکستان کونسل نے جمعہ کو پرامن یوم احتجاج منانے کی حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ عدالتی کمشن راولپنڈی واقعہ کی تحقیقات جلد مکمل کرے اور اس میں ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔دفاع پاکستان کونسل کے اجلاس میں مولانا سمیع الحق،پروفیسر حافظ محمد سعید ،علامہ احمد لدھیانوی و دیگر نے شرکت کی۔جس میں انکا کہنا تھا کہ راولپنڈی واقعہ کراچی سے خیبر تک ملک کو فرقہ واریت کی جنگ میں جھونکنے کے مترادف اور ملک پر دشمن کا زمینی ڈرون حملہ تھا، فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کیلئے دشمن نے گہری سازش تیار کی، ہم اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی سعی کر رہے ہیں واقعہ قیامت صغریٰ سے کم نہ تھا، دشمن ملک کو فرقہ وارانہ جنگ میں جھونکنا چاہتا ہے۔ ایک طرف حکومت اور طالبان میں مذاکرات کی باتیں ہو رہی تھیں اور دوسری جانب امریکہ کی جانب سے ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری ہے جس سے واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ پاکستان میں امن نہیں چاہتا اور وہ اس خطے کے معصوم عوام کو اپنے ٹینکوں تلے روند کر مال غنیمت لے کر جانا چاہتا ہے۔
سازش کے تحت یہاں فرقہ وارانہ جھگڑا پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور ہم بھی بیرونی سازشوں کا شکار ہوکر پاکستانی بننے کی بجائے کوئی سنی بن گیا کوئی شیعہ ہو گیا، راولپنڈی واقعہ کی آڑ میں دشمن آگ بھڑکانا چاہتا ہے یہ بہت گہری اور سوچی سمجھی سازش ہے دشمن کی پوری منصوبہ بندی سامنے آ چکی ہے۔ اس واقعہ سے مساجد کا تقدس پامال ہوا ہے اور اس میں ملک دشمن عناصر ملوث ہیں۔ وقتی مظاہروں اور جھگڑوں سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ کوئی مکتبہ فکر دوسرے کی دل آزاری نہ کرے قوم سے صبروتحمل کی اپیل کرتے ہیں۔ اہلسنت والجماعت کے سربراہ علامہ احمد لدھیانوی نے کہاکہ راولپنڈی واقعہ کی مکمل تحقیقات کرنے پر ہم نے حکومت پر اعتماد کیا ہے، اگر واقعہ میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ ہوئی تو ملک میں ایک نہ ختم ہونے والے بحران کا آغاز ہو جائے گا، لال مسجد کے بعد آج تک ہم دہشت گردی پر قابو نہیں پا سکے، پنڈی واقعہ سے 500 خاندان بے روزگار ہوئے ہیں، ایک سروے کے مطابق عاشورہ کی تعطیلات اور اس واقعہ کی وجہ سے 22 ارب سے زائد کا نقصان ہوا ہے، سالانہ شیڈول کے مطابق نکلنے والے جلوسوں کی تعداد 20سے زائد ہے، جلوس کے قائدین کو بھی شامل تفتیش کیا جائے، اہلسنت والجماعت جمعہ کو ملک بھر یوم احتجاج منائے گی۔
حکومت شہداء کے ورثا اور زخمیوں کو معاوضہ دینے کے اعلان پر فوری عمل درآمد کرے اور تاجروں کی مکمل سپورٹ کریں گے۔ قوم اس سانحہ کے بعد افسردہ ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ سوشل میڈیا پر کرٰی نظر رکھی جائے۔ فرقہ واریت کا زہر کو سوشل میڈیا پر بویا جا ریا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ جماعتوں کو بھی اپنے کارکنا ن کو سمجھانا ہو گا کہ پاکستان سب کا ہے اسکی حفاظت کرنی ہے نہ کہ انتقام انتقام کے نعرے لگائے جائیں۔ اگر انتقام کی فضا بنی تو پھر پاکستان محفوظ نہیں رہے گا۔سوشل میڈیا پرایک دوسرے کے خلاف اگلے جانے والے زہر کو ختم کیا جائے۔ غلط اطلاعات و افواہیں پھیلانے سے گریز کیا جائے۔ بلکہ سچ اور حقائق کو سامنے لایا جائے۔