ملک بھر میں نئے چھوٹے صوبوں کے لئے مطالبات اور تحریکیں کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہیں۔ آزادی کے بعد سے آج تک مختلف ادوار میں ملک کے مختلف گوشوں سے نئے صوبوں کا مطالبہ ہوتا رہا ہے۔ ان تمام کی مانگ تو کبھی زبان کی بنیاد پر کی گئی تو کبھی علاقے کی بنیاد پرلیکن جب بھی نئے صوبوں کی بات ہوتی ہے تو بہت سے لوگ اس کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں مختلف قسم کے سوال کھڑے کر دیتے ہیں۔
پھر نئے صوبوں کے حمایتی یہ دلیل دیتے ہیں کہ نئے صوبوں سے مرکز مضبوط ہوتا ہے اور وہ تیزی کے ساتھ ترقی کرکے ملک کو اقتصادی ترقی میں مدد دیتے ہیں۔ چونکہ نئے صوبے مرکزی سطح پر زیادہ منحصر رہتے ہیں اس سے مرکز مضبوط ہوتا ہے تو ملک بھی آسانی سے چلایا جا سکتا ہے اور پھر عوام بھی اپنے نمائندوں کے زیادہ قریب تر ہوتی ہے۔نئے صوبوں میں ثقافتی و تہذیبی اکائی زیادہ ہوتی ہے جو لوگوں میں یکجہتی پیدا کرتی ہے اس لئے نئے صوبوں کے لئے ایک جدید اور ترقی یافتہ نظریے کی ضرورت ہے۔ چونکہ ملک میں آج کل کئی اطراف سے نئی صوبوں کی تشکیل کی مانگ ہو رہی ہے اور مختلف سیاسی مدبران بھی ایسی آوازیں وقتاً فوقتاً لگاتے رہتے ہیں اس لئے نئی سوچ کو بنانے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی کئی دہائیوں سے ملک نے ایک نئی اقتصادی حیثیت بنائی ہے اور مختلف شعبوں میں ترقی کی ہے لیکن نئے صوبوں کے بننے سے یہ ترقی اور زیادہ ہونے کی توقع ہے۔
لوگوں کے اقتصادی حالات بہت بدل سکتے ہیں۔ معاشرے میں نئی قدروں کا جنم ہوگا، ہو سکتا ہے کہ نئے صوبوں کی مانگ اقتصادی ترقی کی ایک انگڑائی بھی ہو جو معاشی نا برابری کی وجہ سے معاشرے اور ملک میں پیدا ہو رہی ہے کیونکہ ہمارے یہاں آزادی کے بعد سے اب تک ملک میں نئے صوبے بنانے کی صرف زبانی جمع خرچ ہی ہوتی رہی ہے مگر تاحال نئے صوبوں کی طرف پیش قدمی نہیں ہو سکی۔ظاہر ہے کہ وہ وقت بھی ملک میں سیاسی اور سماجی تبدیلی کا تھا اور آج اقتصادی تبدیلی کا ہے۔ یوں بھی ملک کے بہت سے دانشوروں کی یہ رائے ہے کہ پاکستان میں کئی نئے صوبوں کی تشکیل کی ضرورت ہے۔
اس سے ملک کا فیڈرل سسٹم اور مضبوط ہوگا اور لوگوں کو ان کی پہچان بھی مل سکے گی۔ ملک میں اس وقت چار صوبے ہیں اور ایک گلگت بلتستان کا صوبہ انتظامی بنیادوں پر قائم کیا جا چکا ہے۔ یوں ابھی ملک میں اور نئے صوبوں کی پوری گنجائش موجود ہے۔ لیکن اس سلسلے میں سیاسی جماعتیں ہمیشہ پش و پیش میں ہی رہی ہیں۔ جبکہ کئی لیڈرانوں نے اس پر مستند آواز بھی بلند کی ہے۔ جب بھی کوئی اس قسم کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے تو مختلف سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی مخالفت کر رہی ہوتی ہیں۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے سب کو ایک آواز ہو کر فیصلے کر دینے چاہیئں۔
آج ملک میں مختلف سیاسی جماعتوں کے مختلف سوچ ہیں۔ ملک میں غریبی اور مسلک، بے روزگاری اور مہنگائی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ قدرتی وسائل اور ملک کی دولت کا غیر مساوی تقسیم بھی لوگوں کے اس ازم کو پختہ کر رہی ہے، اس کو بھی دھیان میں رکھ کر نئے صوبوں کی تشکیل کی ضرورت بڑی واضح ہو چکی ہے۔ اقتدار کو عام عوام کے زیادہ نزدیک لانے کے لئے بھی نئے صوبوں کی بے حد ضرورت ہے جس طرح پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں پر عوام کے جذبات کو بہت دنوں تک نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن اگر عوام کے کسی طبقے سے عوامی جذبات کے باعث الگ قومیت یا لسانی مذہبی لگائو یا پھر انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کی آوازیں آ رہی ہیں تو جہاں جہاں ضرورت درپیش ہے وہاں نئے صوبوں کی تخلیق کر دینا چاہیئے تاکہ عوامی احساسِ محرومی میں کمی آئے۔
Pakistan
یہ بات بھی ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ رہنا چاہئے کہ نئے صوبوں کا مطالبہ بلا سبب نہیں ہوتا۔ اسی طرح نئے صوبوں کی مخالفت کرنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سے ملک کی سا لمیت کو خطرہ پیدا ہو سکتا ہے اور یہ ایک قسم کی علیحدگی کی شروعات بھی ہو سکتا ہے اور ہماری جمہوری نظام بھی اس طرح کی تبدیلیوں کے لئے تیار نہیں۔ اس دعوے کو کوئی کیا کہے کہ یہ تو ان کی سوچوں پر منحصر ہے کہ وہ کیا سوچتے ہیں ۔ اور ایسے لوگ کیا پس منظر رکھتے ہیں۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جن جن ملکوں میں نئے صوبوں کی تشکیل ہوئی ہے یا ہو رہی ہے وہاں گذشتہ کئی سالوں سے ملک کی سا لمیت کو کہیں سے بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا ہے اور وہ ملک اندرونی و بیرونی دونوں اطراف سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں۔
مختلف تجزیاتی رپورٹوں پر نظر دوڑائیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ امریکہ آبادی کے اعتبار سے ہندوستان سے بہت چھوٹا ملک ہے اس کے دس صوبے غالباً ہندوستان کے ایک صوبے یو پی کے برابر ہے لیکن مد نظر رکھنے والی بات یہ ہے کہ ان صوبوں کی وجہ سے امریکہ کے وفاقی نظام کوکبھی خطرہ لاحق نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح بڑے صوبوں کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ صوبوں کو چھوٹا چھوٹا بنانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ حکومت کے نظام کو اور جمہوری نظام بنانے سے لوگوں کی خواہشات پوری ہوں گی۔ تو چلیں ایسا ہی سہی ! عوام کی خاطر ہی سہی اپنے خیالات کو رکھیئے ایک طرف! اور نئے صوبوں پر پیش رفت کر ڈالیئے ۔ تاکہ عوام کو اقتدار میں زیادہ سے زیادہ حصہ مل سکے، اور مرکز مضبوط ہو جائے۔
اگر دیگر پہلوئوں سے بھی دیکھا جائے تو نئے اور چھوٹے صوبے ہر اعتبار سے زیادہ بہتر ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اتنے چھوٹے نہ ہوں کہ انتظامیہ کا ہلکا پن نظر آنے لگے ۔ ہمارے ملک میں با صلاحیت افراد کی قلت نہیں ہے ۔ آپ یہ ببانگِ دہل کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک قابل شخص موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں تلاش کیا جائے۔ اور جب نئے صوبے تشکیل پائیں گے تو یہ جوہر خود ہی آسانی سے دستیاب ہو جائیں گے۔ بنیادی اقتصادی نظریہ سے بھی چھوٹے اور نئے صوبوں کی تشکیل سے کوئی فرق نہیں ہوتا کیونکہ جیسے آج کم صوبے میں بھی ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں بعد میں زیادہ صوبوں کے ساتھ بھی ایک دوسرے کے ساتھ بہتر طریقے سے جڑے ہی رہیں گے۔ آج بھی ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک آنے جانے کی آزادی سبھی کو حاصل ہے ، ہر شہری کو ملک میں کہیں بھی آباد ہونے کی آزادی حاصل ہے، وہ اپنا کام اور کاروبار کر سکتا ہے۔ اور جب زیادہ صوبے ہونگے تب اور زیادہ اس قسم کے مواقع میسر آ سکیں گے۔
آج وقت کی ضرورت بھی ہے اور عوامی ڈیمانڈ بھی، اس لئے مرکزی حکومت کو ایک نیا کمیشن نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے فوراً قائم کرنا چاہیئے ، تاکہ یہ کمیشن پورے ملک میں ہر سطح پر لوگوں کی رائے لے کر اپنی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرے تاکہ جلد از جلد نئے صوبوں کی تشکیل ہو سکے۔ ویسے بھی دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں آبادیاں بہت کم ہیں مگر ان کے یہاں صوبوں کی وافر تعداد موجود ہے اور ایسے ملک دنیا کے نقشے پر ترقی کے منازل در منازل طے کر رہے ہیں۔بہر حال اب قت و حالات کا تقاضہ ہے کہ سرکار اپنا کردار اس طرح نبھائے کہ دوسرے اس کو بڑا کہیں اور عزت کریں، تب کہیں جا کر ملک اور معاشرہ دونوں ترقی کا نکھرتا ہوا سورج دیکھنے کے قابل ہو سکیں گے۔