ہمارے معاشرہ کا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم مستقبل کی پلاننگ نہیں کرتے، اس میں کوئی شک نہیں کہ راولپنڈی انتظامیہ کو معلوم تھا کہ جس جگہ فساد ہوا وہ حساس مقام تھا مگر پھر بھی اس کا انتظار کیا گیا جس سے صاف ظاہر ہے راولپنڈی سانحہ ہماری انتظامیہ و سکیورٹی اداروں کی نااہلی کا منہ بو لتا ثبوت ہے اور اس کے اوپر مزید رونے کا مقام یہ ہے کہ ہم اپنی نااہلی سے سبق حاصل نہیں کرتے اور پے در پے سانحات مگر مچھ کی طرح منہ کھولے ہمارا انتظار کرتے ہیں۔
ہم ان کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں، حادثات کو حکم ربی کہہ کر مرنے والوں کو دلاسہ دیکر پھر ویسے ہی سانحہ کا شکار ہو نے کیلئے مزید اموات کا انتظار کیا جاتا ہے، ہمارے ادارے اور ان کی انتظامیہ کی نالائقیوں کی سزا معصوم شہریو ں کوبھگتنا پڑتی ہے،اسی طرح کا ایک واقعہ پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ کے ساتھ بھی پیش آگیا اور بیچاری کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
شعبہ ابلاغیات کی طالبہ علیشاء ماڈل ٹائون سے اپنی ہی یونیورسٹی کی بس پر جانے کیلئے سٹاپ پہنچی، علیشاء کی والدہ اسے الوداع کہنے ساتھ تھی، پہلے سے اوور لوڈڈ بس نمبر ایل آر سی 5951 میں طلبہ باہر لٹک رہے تھے ،علیشاء نے بھی چڑھنے کی کوشش کی اور پائوں پھسل گیا،بیچاری سڑک پر گری اور اس کی اپنی یونیورسٹی کی بس ہی نے اس کا سر کچل ڈالا، مجھے یقین ہے اس کی آنکھوں میں اعلی تعلیم کا خواب پتھرا گیاہو گا،،،،،،،،دیکھتے ہی دیکھتے اس کی ماں کے سامنے اسکی ہستی مسکراتی پھولوں جیسی بیٹی کی سربریدہ لاش سڑک پر پڑی تھی، ماں کی حالت دیدنی تھی اکلوتی بیٹی کو خون میں لت پت دیکھ کر شدت غم سے نڈھال ہو گئی اور آہ و فغاں برپا کر دیا،علیشاء بی ایس آنرز کے میرٹ میں پہلے نمبر پر تھی، ذہین ساتھی کے ”قتل” پر طلبہ مشتعل ہو گئے اور یونیورسٹی انتظامیہ کیخلاف شدید احتجاجی مظاہرہ کیا۔
Punjab University
مزکورہ بالا واقعہ کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ حرکت میں آئی، ڈاکٹر کامران مجاہد نے ڈرائیور کو معطل کر دیا، ایک گھر کا چراغ گل کرنے کے بعد ان کی آنکھیں کھلیں اور اب زیادہ رش والے روٹس پر کرائے پر حاصل کردہ بسیں چلانے کے احکامات صادر کئے ہیں، یہ بھی یونیورسٹی انتظامیہ کی ہی نااہلی ہے کہ 32000 ہزار طلبہ کے ادارے میں محض 50 بسیں طلبہ کو لانے لے جانے کیلئے کام کر رہی ہیں، پاکستان میں حادثات میں ہلاکتوں سے جان چھڑانے کیلئے کامران مجاہد نے بھی بچی کی ہلاکت کا ذمہ دار ڈرائیور کو قرار دیتے ہو ئے اپنا دامن بچانے کی کوشش کی ،کچھ عرصہ قبل شیخ رشید وزارت ریلوے سنبھالے ہو ئے تھے اور ٹرین حادثہ میں ہلاکتیں ہو گئیں جس پر انہوں نے ایک بیان دیا جس سے پاکستانی معاشرہ کی بے حسی عیاں ہو کر سامنے آگئی ،استعفیٰ کے مطالبہ پر موصوف نے فرمایا”بھلا میں کیوں استعفیٰ دونگا کونسا میں ٹرین چلارہا تھا” جناب انہو ں نے درست ہی فرمایااب یونیورسٹی ڈرائیور کو چاہیے تھا نہ کہ بس کا دروازہ بند کر لیتا ،چاہے طلبہ سوار ہو نے سے رہ جاتے۔
بس میں سواریوں کی مطلبوبہ تعداد پوری ہو نے پر باقی سب کو چھوڑ جاتا،چاہے ان کا جتنا بھی تعلیمی حرج ہو تا ،لیکن کیا کبھی یونیورسٹی چانسلر نے سوچا کہ وائس چانسلر کو ایسے مسائل سے نمٹنے کیلئے ہی تو وہاں بٹھایا گیا ہے لیکن اسے تو سیاست سے ہی فرصت نہیں مل رہی،ایسے کاموں کیلئے ان کے پاس وقت ہی نہیںکہ اسے مسائل کے ادارک کے بعدان کے متعلق پلاننگ کی جائے،وہاں تو لابیاں کا م کر رہی ہیں جو اپنی ترقی کیلئے ہر جائز و ناجائز کو آزمانے پر تلی ہیں۔
کہا یہ ہی جا رہا ہے کہ ڈرائیور کی غفلت سے ایک حادثہ ہو ا اور ایک طالبہ اپنی جان کی بازی ہا ر گئی جی نہیں علیشاء کو قتل کیا گیا،پاکستان کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کی نااہلی ،بے حسی اور نالائقی نے والدین کی اکلوتی بیٹی کی جان لی،طالبہ کی ہلاکت محض ڈرائیور کی غفلت سے نہیں ہوئی،یونیورسٹی انتظامیہ اندھی ہے،کیا نہیں جانتی ہو گی کہ50بسیں طلباء کیلئے کم ہیں،کیا بسوں کی تعداد میں اضافہ یونیورسٹی انتظامیہ کی بجائے کسی اور ادارے کی ذمہ داری ہے؟غفلت صرف ڈرائیور ہی نہیں ان لوگوں نے بھی برتی ،ان کی ذمہ داری ہے طلبہ کو یونیورسٹی میں لا کر وہاں محفوظ اور پرسکون ماحول مہیا کر نا پھر انہیں گھر تک باحفاظت پہنچانا۔
پاکستان میں مسائل کا حل دوسرے ہی طریقے سے کیا جاتا ہے مزید حادثات کو روکنے کیلئے شاید یونیورسٹی انتظامیہ سوچ رہی ہو گی کہ اب بسوں کے ذریعے طلبہ کو لانے اور لیجانے کا انتظام بند ہی کر دیا جائے جیسے ان کی زندگی میں دھکے کھا کر وہ دوسرے کام کرتے ہیں ویسے ہی نجی بسوں میں دھکے کھا کر یونیورسٹی بھی پہنچ جایا کریں گے مجھے یقین ہے ذہین طالبہ علیشاء کی روح اپنے قاتلوں کا گریبان پکڑنے کیلئے بے چین ہو گی اور روز قیامت ضرور یونیورسٹی کے اہل اقتدار اور بااختیار لوگوں کو اپنا قاتل قرار دیگی لیکن تاحال معاملہ کچھ یوں ہے۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں کہ سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے