نواز شریف کے دورہ امریکہ کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور بہت کچھ لکھا جائے گا۔ مگر میں صرف ایک خبر کا اضافہ کر رہا ہوں جوکہ میری ”چڑیا” نے نہیں بلکہ میرے جن نے مجھے فون پر بتائی ہے۔ میرا جن کہتا ہے کہ میں جب ڈرون کی طرح قلابازیاں کرتا ہوا اوباما اور نواز شریف کے پاس سے گزرا تو کیا سنتا ہوں کہ نواز شریف پوچھ رہے تھے عزت مآب اوباما صاحب آپ نے وعدہ کیا تھا کہ نئے آرمی چیف کا نام دیں گے تو برائے مہربانی مجھے نام بتا دیں، میں واپس پاکستان جا کر اعلان کردوں گا تاکہ میری پانچ سال کی نوکری بھی پکی ہو جائے اور آپ کو کوئی نیا فرمانبردار ڈھونڈنا نہ پڑے۔ اس طرح میری پچھلی غلطیوں کا بھی ازالہ ہوجائے گا۔
عوام کو مزید قربانی کا بکرا بنانے میں آسانی رہے گی اور آپ کے اور میرے محسن اسحاق ڈار کو بھی عالمی بینک کی اور آپ کی شرائط پوری کرنے میں آسانی ہو گی۔ اور اس طرح ہر انقلاب کا راستہ ہمیشہ کیلئے روک دیا جائے گا کیونکہ عوام کو ہم نے اس قابل چھوڑا ہی نہیں ہے کہ وہ غربت اور پیٹ کے جنجال سے باہر نکل سکے ویسے بھی چند سال بعد پانی کی وجہ سے ہم پاکستان کو صومالیہ اور ایتھوپیا بنانے جا رہے ہیں اس لئے بس چند سال عوام سے اور فوج سے خطرہ ہے ہم عوام کیلئے تو بجلی، پٹرول اور گیس کے نرخ اتنے بڑھا دیں گے کہ ان کو ہماری طرف دیکھنے اور سوچنے کی بھی فرصت نہیں ملے گی اور ہم کو بھی کرپشن میں آسانی ہو جائے گی اور رہی بات فوج کی تو اس دفعہ کے الیکشن اور میرے اقتدار میں آنے سے ہی فوج تقسیم کے عمل سے گزر رہی ہے اور رہی سہی کسر ہماری آزاد عدلیہ اور ہمارے آزاد میڈیا نے پوری کر رکھی ہے کہ پوری فوج کو اپنے خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔
Imran Khan
رہی عمران خان کے تبدیلی نظام والے خواب کی بات تو عمران کے خواب کو ہمیشہ کیلئے دفن کردیں گے۔ ویسے بھی ہم نے عمران خان کو ایک صوبے میں حکومت دے کر دفن کردیا ہے دوسرا ہم نے انقلاب کو روکنے کیلئے ایسے آدمی عمران خان کی ٹیم میں شامل کر دیئے ہیں کہ اب انقلاب تو دور کی بات وہ تو اپوزیشن کرنے کے بھی قابل نہیں رہیں گے۔
ویسے بھی چند سال بعد حکمران ایک پانی کی بوتل کی قیمت پر ووٹ خریدا کرے گا۔ اس لئے حکمرانوں کیلئے میدان صاف ہو چکا ہے اور جو میری طرح انقلاب کیلئے چنگھاڑتے رہتے ہیں یہ امریکا اور ہماری حکمرانوں کی ضرورت ہیں اس سے سب کی دکانیں چلنے میں دشواری نہیں ہوتی اور اپنا اپنا حصہ سب وصول کرتے رہتے ہیں اس پر میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں اور تھک بھی گیا ہوں لیکن اپنی محب وطنی کا حق ادا کرتا رہوں گا چاہے کوئی میری ان فکر انگیز تحریروں کو سمجھے یا نہ سمجھے! لیکن آج کے کالم میں اس پر مزید بات نہیں کرنا چاہتا۔
میں واپس اپنے عنوان کی طرف آتا ہوں اس خبر کو مجھ تک پہنچانے سے پہلے میرے جن نے میرے موکل سے رابطہ کیا کہ یہ بری خبر میں عوام کو نہیں سنا سکتا مگر موکل نے بھی یہ خبر پھیلانے سے معذرت کرلی۔
اسے اب ان فضول خبروں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بعد میں میرے جن نے اپنے آنسو خشک کرکے یہ خبر مجھ تک پہنچا تو دی ہے مگر وہ بھوت(انقلاب) اداس ہے پریشان ہے کہ اس آزاد پاکستان کے فیصلے دبئی، لندن، امریکا اور جدہ میں کیوں ہوتے ہیں اور یہ کرپٹ حکمران اپنی دولت معذرت کے ساتھ ملک کی لوٹی ہوئی دولت باہر کے ملکوں میں انویسٹ کرتے ہیں۔
عوام کیلئے مگر مچھ کے آنسو پاکستان میں بہاتے ہیں۔ واہ! میرے کرپٹ حکمرانوں واہ میرے خوبصورت وردی والے جرنیل، واہ میری عدلیہ، واہ میری مکار بیوروکریسی، واہ میری شعور والی مجبور لاغر عوام، واہ میرے انقلاب اور نظام تجھے مبارک ہو جنگل کا شیر اپنے شکار کیلئے پاگل ہو چکا ہے۔
Pakistan
ہم جیسے گیدڑ اپنے اپنے غاروں سے باہر کی طرف جھانک رہے ہیں کہ شاید کوئی ہاتھی یا چیتا ہم کو پکارے کہ باہر نکلو مل کر مقابلہ کریں مگر یہ آس، امید، انقلاب اور اس کرپٹ نظام جمہوریت کو تبدیل کرنے والی ہر امید آہستہ آہستہ دم توڑتی جارہی ہے کہ۔ کب کوئی خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے گا اور ہم اس سپاہ سالار پر فخر کر سکیں گے۔ شاید کہ کوئی آئے! شاید کہ کوئی آئے!!!