مصر میں مظاہروں کو محدود کرنے کا متنازع قانون منظور

Egypt Protests

Egypt Protests

قاہرہ (جیوڈیسک) مصر میں مظاہروں کو محدود کرنے کا متنازع قانون منظور کر لیا گیا۔ عبوری صدرنے دستخط کردئیے، مظاہرین کو پولیس کو پیشگی آگاہ کرنا ہوگا۔

مصر کے عبوری صدر عدلی منصور نے ملک میں ہونے والے مظاہروں کو محدود کرنے کے لیے ایک متنازع قانون کی منظوری دے دی ہے۔ مصر کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل نے اطلاع دی ہے کہ صدر عدلی منصور نے اس قانون پر دستخط کر دیے ہیں۔

اب اس کے نافذ العمل ہونے کے بعد مظاہرین کو عوامی مقامات میں اجتماع سے قبل پولیس کو پیشگی آگاہ کرنا ہوگا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قانون کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ اس سے شہریوں کا اجتماع اور پرامن احتجاج کا حق سلب ہو کر رہ گیا ہے۔

لیکن مصر کے عبوری وزیراعظم حازم ببلاوی نے اس متنازع قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مظاہرین کے حقوق کا تحفظ ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ قانون میں یہ نہیں لکھا ہے کہ مظاہرین کو ریلیوں کے انعقاد سے قبل اجازت لینا ہوگی بلکہ انھیں اپنے مظاہروں کے بارے میں حکام کو پیشگی آگاہ کرنا ہوگا۔

مصری وزیراعظم کے بقول اس قانون کی تفصیل بہت جلد شائع کر دی جائے گی۔ اس قانون کا جب مسودہ تیار کیا جا رہا تھا تو اس میں یہ کہا گیا تھا کہ مظاہروں سے متعلق حکام سے پیشگی اجازت لینا ہو گی اور خلاف ورزی کرنے والوں پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی قوتوں نے اس قانون پر کڑی تنقید کی ہے اور اس کو مظاہرین کی آزادی کو محدود کرنے کی جانب قدم قرار دیا ہے۔ مصر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ عدالت کی جانب سے اس قانون میں بعض ترامیم کے باوجود اب بھی اس کے ذریعے پولیس کو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لامحدود اختیارات دے دے گئے ہیں۔

احتجاجی مظاہروں پر قدغنیں لگانے کے لیے اس قانون کا مسودہ فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت نے تیار کیا تھا۔ اس پر ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک بحث مباحثہ ہوتا رہا ہے اور اس کو ملک میں گزشتہ تین ماہ سے جاری ہنگامی حالت کے خاتمے کے دس روز کے بعد نافذ العمل کیا گیا ہے تاہم ابھی اس کی تمام تفصیل منظرعام پر نہیں آئی ہے۔

واضح رہے کہ مصر کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی کے ہاتھوں منتخب صدر محمد مرسی کی برطرفی کے بعد قائم کی گئی حکومت شہری آزادیوں پر پہلے ہی بعض قدغنیں لگانے کی کوشش کر چکی ہے اور حکومت مخالفین کو آزادانہ طور پر احتجاجی مظاہروں کی اجازت نہیں ہے۔

اس حکومت کے تحت سکیورٹی فورسز نے 14 اگست کو قاہرہ کے دو علاقوں میں منتخب صدر کی برطرفی کے خلاف دھرنا دینے والے اخوان المسلمون کے کارکنان کے خلاف طاقت کا بے مہابا استعمال کیا تھا اور ان کے خلاف خونیں کریک ڈائون میں کم سے کم ایک ہزار افراد مارے گئے تھے جبکہ دو ہزار سے زیادہ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔