کابل (جیوڈیسک) افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے امریکا کے ساتھ سلامتی کے باہمی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
وائٹ ہاس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر کرزئی امریکا کیساتھ فوری طور پر معاہدہ طے کرنے کے لیے رضامند نہیں ہیں اور انہوں نے معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے نئی شرائط عائد کر دی ہیں۔
امریکی قومی سلامتی کی مشیر سوزن رائس سوزن رائس نے اپنے تین روزہ دورہ افغانستان کے آخری دن صدر کرزئی کو مطلع کر دیا ہے کہ اگر امریکا اور افغانستان کے درمیان باہمی سکیورٹی کے معاہدے کو حتمی شکل دینے میں تاخیر کی گئی تو امریکا کے پاس 2014 کے بعد افغانستان سے اپنے فوجیوں کے انخلا کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہوگا۔
انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر افغانستان رواں برس کے دوران دو طرفہ سلامتی کے معاہدے پر دستخط نہیں کرتا تو اس کے نتیجے میں افغان نیٹو فوجی مشن کے خاتمے کے ساتھ ہی تمام امریکی فوجی بھی واپس بلائے جا سکتے ہیں۔
رائس نے زور دیا ہے کہ آئندہ برس صدارتی انتخابات کے انعقاد تک اس مجوزہ معاہدے پر دستخط نہ کرنا عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔
بیان کے مطابق لویہ جرگہ کی توثیق کے بعد امریکا اس معاہدے پر دستخط کے لئے تیار ہے تاہم صدر کرزئی نے نئی شرائط رکھنے کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس معاہدے پر دستخط کرنے کی عجلت میں نہیں ہیں۔
حامد کرزئی نے جو نئی شرائط پیش کی ہیں ان میں امریکی فورسز کی طرف سے افغان گھروں پر چھاپے نہ مارنا، آئندہ صدراتی انتخابات کی شفاف اور غیر جانبدار انعقاد میں امریکی مدد، طالبان کے ساتھ مذاکرات میں تعاون اور گوانتانامو بے میں مقید افغان قیدیوں کی رہائی شامل ہیں۔
صدر کرزئی کا کہنا ہے امریکی مندوب سے یقین دہانی کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکی فوجی افغان شہریوں کے گھروں پر چھاپے نہیں ماریں گے اور امریکہ طالبان کے ساتھ معطل ہوئے مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے میں مدد کرے گا۔
واضع رہے کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں منعقدہ لویا جرگے میں شامل افغان عمائدین نے امریکہ سے سکیورٹی کے معاہدے کی منظوری دے دی تھی۔ اس معاہدے کے تحت 15000 غیر ملکی فوجی افغانستان میں 2014 کے بعد بھی رہیں گے۔
امریکا کا اصرار ہے کہ اس مجوزہ معاہدے کو اس سال کے اختتام سے پہلے طے پانا ہوگا تاکہ امریکہ فوجیوں کو 2014 کے بعد بھی ملک میں قیام کی اجازت ہو۔ 2014 کے بعد افغانستان میں رہنے والے بیشتر غیر ملکی فوجیوں کا کام افغان افواج کی تربیت ہوگا تاہم ان میں انسدادِ دہشتگردی کے چند خصوصی دستے بھی شامل ہوں گے۔