زرامت خان مجھے پشاور کے ایک قہوہ خانے میں ملا وہ اس روز پشاور میں نیٹو سپلائی کیخلاف تحریک انصاف کے ایک بڑے احتجاجی جلوس میں شرکت کر کے لوٹا تھا۔ قہوہ کے سپ لیتے ہوئے اپنی گفتگو کے دوران وہ مجھے ایک دانشور لگ رہا تھا حکمرانوں اور امریکہ کے خلافکہر آلود ماہ دسمبر اس کے بھڑکتے ہوئے جذبات کو سرد نہ کر سکا۔ ایک غیرت مند پٹھان کہہ رہا تھا کہ نیٹوسپلائی ہماری غیرت کی لاش کو گرا کر اور روند کرکی جا رہی ہے نام نہاد ترقی یافتہ ، مہذب اور انسانی حقوق کا علمبردار امریکہ یہ کیوں بھول جاتاہے کہ آخر وہ کیا حالات ہیں کہ جن کی بدولت ایک قوم جس کے مذہب کی اصل بنیاد اور فلسفہ و تعلیمات کا حقیقی مقصد ہی امن و سلامتی ہے پھر آخر کیوں اپنے تن من اور دھن کو قربان کر رہی ہے ؟کیوں جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کر رہی۔
کیا ان حالات کاسدباب کیا گیا جن کی بدولت ایک مسلمان سرفروشی پر مجبور ہوا ؟کیا نام نہاد سپر پاور نے حق تلفی و ناانصافی کی ان کیفیات سے دامن چھڑا لیا جو قدرتی و فطری طور پر کسی بھی غیرت مند قوم میں عظیم ردعمل کا سبب بن سکتی ہیں؟امریکہ سن لے ! جیو اور جینے دو کی پالیسی پر اگر اس نے عمل نہ کیا تو یہی افغانستان تھا جہاں دو سپر پاور ز کا حشر نشر ہواتہذیبوں کے درمیان امریکہ نے جو تصادم پیدا کیا ہے اسے اب بھی ٹالا جا سکتاہے ۔کیونکہ یہی پر امن بقائے باہمی کا بنیادی اور دائمی تقاضا ہے۔
پھر دفاع پاکستان کونسل کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرے کئی شہروں میں نیٹو سپلائی کے خلاف ہوئے وطن عزیز کے نو جوان سپوت غیرت کا پیر اہن پہن کر شاہراہوں پر نکل آئے 9 نومبر2011کو سلالہ چیک پوسٹ پر ہمارے مجاہد شہید ہوئے توجنم جنم کے غلام ذہنوں نے امریکہ سے سوری کا لفظ کہلوانے کیلئے نیٹو سپلائی معطل کر دی سات ماہ تک یہ سپلائی معطل رہی اور بالا خر نئے راجہ کے سامنے جب میم نے سوری کیا تو وفاداروں کی فہرست میں نام درج کرانے کیلئے اس نے ذرا بھر تامل نہیں کیا 250 ڈالر کی شکل میں فی ٹینکر راہداری ٹیکس بھی ختم کر دیا گیا گیارہ برس گزرنے کے باوجود 37 ممالک سے آئی ہوئی دنیا کی جدید ترین ،مہلک ہتھیاروں سے لیس نیٹو افواج بھاری پگڑیوں ،گھنی ڈاڑیوں اور لمبی عبائوں والے مٹھی بھر طالبان سے خوفزدہ ہے اور امریکہ کی سپہ سالاری میں کابل و قندھار کے گلی کوچوں میں ذلیل و رسوا ہو رہی ہے۔
Afghanistan
افغانستان میں بربادی پھیلانے کیلئے امریکہ 2بلین ڈالر ہفتہ وار خرچ کر رہا ہے مگر افغانستان کی تعمیر نو کیلئے اس نے جس رقم کا وعدہ کیا تھا اس کا صرف بارہ فیصد افغانستان آیا ہے آج آدھی سے زیادہ آبادی خوراک کی شدید کمی کا شکار ہے اور600 بچے جن کی عمر یں 5 سال سے کم ہیں روزانہ مررہے ہیں ایک لاکھ میں سے 1600 مائیں بچے کی پیدائش کے دوران مر جاتی ہیں یہ شرح دنیامیں سب سے زیادہ ہے افغانستان میں بنیادی انسانی ضروریات ، تعلیم روزگار، علاج اور خوراک بہم پہنچانے والے 178 ممالک میں 173 ویں نمبر پر ہے۔امریکی قبضے کے گیارہ سال بعد بھی موجودہ صورتحال کو مشترکہ اور ناہموار ترقی کی سب سے بہترین مثال قرار دیا جا سکتاہے جہاں دنیا کی بہترین گاڑیاں موجود ہیں لیکن سڑکیں نہیں ہیں ، سیلولر فون ہیں لیکن علاج کیلئے ہسپتال نہیں جدید ہتھیا ر موجود ہیں مگر کوئی بھی بنیادی انفراسٹرکچر نہیں ، نیٹو افواج کی موجودگی کے باوجود اصلاحات کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ۔3 کھرب ڈالر ز کے مصارف کے باوجود طالبان 2001سے کہیں زیادہ مضبوط، فعال اور منظم ہوئے ہیں اور نام نہاد سپر پاور ان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوچکی ہے۔
80فیصد افغانستان اس وقت کابل کے کنٹرول میں نہیں سامراجی افواج جب بھی کسی آپریشن کیلئے جاتی ہیں تو وہاں پر تباہ و برباد عمارتیں ، لاشیں ، روتے چلاتے بچے ، عورتیں چھوڑ کر آتی ہیں جس کی وجہ سے افغان عوام کی زندگی پہلے سے زیادہ دردناک ہے وطن عزیز میں قومی عزت و وقار کا سودا کرنے کے عوض ملنے والی چند ٹکوں کی خیرات پر فتح و کامرانی کے شادیانے بجانے والوں نے ملکی معیشت کا دیوالیہ نکال دیا ہے مکہ لہرانے والے ایک آمر نے امریکی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار لیکر ملک کو 68ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا جس پر ڈرائون حملے ،او ر خود کش حملے ، بم دھماکے وطن عزیز کے حالیہ منظر نامے کی جھلکیاں ہیں شمالی علاقہ جات کے محب وطن باسیوں کے ساتھ آگ او رخون کا کھیل کھیلا جا رہاہے۔
ہنستی بستی جنت نظیر وادیاں دوزخ میں تبدیل ہو چکی ہیں تعلیمی ادارے قبرستان بنادیے گئے ہیں امریکیت جب اپنی تیز رفتاری کے باعث تھک کر لمحہ بھر کیلئے رکتی ہے تو سکتے میں آئے مقامی باسیوں کی ڈرون کے اچانک ایک خونریز دھماکے سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں ۔ نیٹو سپلائی سے 50 ارب ڈالر کا نقصان ہماری شاہرات کو ہوا اور جب سپلائی بحال ہوئی تو دوسرے روز ایک ڈرون گرا کر ہمیں 21 لاشوں کا تحفہ ملا عین اُس وقت جب اے پی سی مذاکرات کے تحت مذاکرات کیلئے تین رکنی وفد حکیم اللہ محسود سے مذاکرات کیلئے روانہ ہورہا تھا امریکہ نے ڈرون مار کر مذاکراتی فریق کو مار ڈالایہ تسلسل رکا نہیں سرتاج عزیز وزیر خارجہ کی ایک روز قبل کی گئی یقین دہانی پر ڈرون اٹیک ہوا اور ہنگو میں ایک مدرسہ میں بے گناہ افراد کو بے موت مارا گیا ڈرائونی فلم پردہ سکرین کو پھاڑ کر بھی جاری و ساری ہے آج ایک غیرت مند اور محب وطن پٹھان عمران خان ایک بار پھر سپر پاور کی بدمعاشی کے آگے بند باندھنے نکلا ہے اورہم نے تو ہر دور میں امریکہ بہادرکے جائز و ناجائز احکامات پر آمنا صدقنا کی صدائیں بلند کیں۔
ایک ایٹمی اسلامی ملک کو اس کی کالونی بنادیا قومی مفادات ، ترجیحات کو پس پشت ڈال کر اس کی کاسہ لیسی کی اپنے آپ کو غلام ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ چھوڑا مگر اس وفا کا صلہ یہ ہے وفاداروں نے جب بھی یاترا کی جوتے تک اتروا کر تلاشی لی گئی اور ہم بھیگی بلی بنے سر جھکائے دست بہ دست انکل سام کے احکام کے منتظر رہے کہ کب جناب کی زبان سے کوئی حکم صادر ہو اور ہم اس کی تعمیل بجا لائیں ۔ بلوچستان میں وہ سی آئی اے، بھارتی را ، اسرائیلی موساد کے ساتھ ساتھ بدنام زمانہ بلیک واٹر اور انٹرریک جیسی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر جو چاہے کرے۔
ہماری زبانوں پر قفل لگے رہے اسلام آباد میں منی پینٹا گون کی تعمیر ہو رہی ہے لاکھوں ایکڑ اراضی دوسرے دوسرے ملکوں کو بیچی جارہی رہے ہمیں کھلے عام دہشت گرد کہا جاتا رہا ہمار ے منہ سے مذمت کے الفاظ تک نہ ادا ہو پائے ہم نے غلامی سے آزادی کی منزل تک پہنچنے کے باوجود غلامی کا طوق اپنے گلے سے نہیں اتار ا غلام تو ہمیشہ آقا کے احکامات کا پابند ہوتاہے فرنگیت سے امریکیت تک جمہوریت اور آمریت کی عوامی قتل و غارت میں 65 برس کی آزاد غلامی کا یہی درس ہے۔