کراچی (جیوڈیسک) لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریمارکس دئیے ہیں کہ آئی جی ایف سی کل ہر صورت عدالت پیش ہوں۔ اگر وہ نہیں آئے تو ہم ان کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے۔ پھر دیکھیں گے کہ کون پولیس والا انہیں گرفتار نہیں کرتا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں چار رکنی لارجر بنچ لاپتہ افراد کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
دوران سماعت ایف سی افسران کی عدم حاضری پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ لاپتا افراد بازیاب نہ ہونے پر وفاقی و صوبائی حکومت اور ایف سی بھی تعاون نہیں کر رہی۔
بلوچستان کے 85 فیصد علاقے پر ایف سی تعینات ہے لیکن وہ حالات سے بے خبر ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایف سی کا کوئی ذمہ دار بھی ہے۔ اگر ہم نے کوئی آرڈر کر دیا تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا۔
عدالت نے قرار دیا کہ کل آئی جی ایف سی خود لاپتا افراد کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوں۔ اگر وہ نہیں آئے تو ان کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا جائے گا۔ پھر دیکھیں گے کہ کون پولیس والا انہیں گرفتار نہیں کرتا۔
عدالت نے ان ایف سی افسران کو بھی پیش کرنے کا حکم دیا جن کے کے خلاف لاپتا افراد کے مقدمات درج ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جمہوری دور میں 50 سے زائد افراد نے کوئٹہ سے کراچی تک پیدل مارچ کیا لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ایف سی نے بلوچستان میں متوازی حکومت قائم کر رکھی ہے۔
وزیر اعلی بلوچستان خود کہتے ہیں کہ ایف سی ان کے بس میں نہیں۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ ہم ریاست کی فلاح کی بات کرتے ہیں تو عدلیہ کے خلاف مہم شروع کر دی جاتی ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ بتائیں کہ آپ لوگ قانون کی بالادستی چاہتے ہیں یا نہیں۔ سماعت کے دوران وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف عدالت میں کھڑے ہو گئے۔
اور انہوں نے کہا کہ وہ وقفے کے دوران لاپتا افراد کے اہلخانہ سے ملنا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ان سے مل کر کیا کریں گے، ان کے بندے بازیاب کرائیں۔ لاپتا افراد کے اہلخانہ کراچی سے نہیں جائیں گے اور نہ ہی عدالت انہیں جانے کا کہے گی۔
کراچی کے لوگ مہمان نواز ہیں وہ ان کی مہمان نوازی کریں گے۔ لاپتا افراد کے وکیل ساجد ترین کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعلی بلوچستان اختر مینگل کو الزامات لگا کر سیاست سے واپس دھکیلا جا رہا ہے جس پر چیف جسٹس کے ریمارکس دیئے کہ اگر اختر مینگل ریاست کے خلاف کام کرتا تو عدالت پر اعتماد کرکے نہ آتے۔