آجکل طالبان سے مزاکرات اور ڈرون حملوں کے بڑے چرچے ہیں اور خرچے بھی ہو رہے ہیں، نیٹو سپلائی بند کرنے کیلئے سرکاری سطح پر کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا گیا، مرکزی حکومت اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کے موقف میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آرہا لیکن (ن) لیگ اور تحریک انصاف میں سیاسی رسہ کشی ضرور زور پکڑ رہی ہے۔
ایک طرف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نیٹو سپلائی کی بندش کیلئے دھرنا دیتے ہیں تو دوسری جانب خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت نیٹو سپلائی بند کرنے کے اعلان سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے اور امریکہ کے اتحادیوں سے کیئے گئے معاہدے کے تحت سالانہ ملنے والے37 ارب روپے کی رقم میں حصہ بھی وصول کررہی ہے اور ڈرون حملے کے حوالے سے نامعلوم شخص کیخلاف جو ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے اس میں امریکہ ،کسی امریکی شہری یا ڈرون کا کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ ہی کسی بے گناہ پاکستانی کی شہادت کا ذکر ہے بلکہ واضح لکھا گیا ہے کہ چار افغانی مارے گئے ہیں ،وزیر اعظم نواز شریف کہتے ہیں کہ” ڈرون حملوں پر حکومت کی دوغلی پالیسی نہیں۔
ہمارے احتجاج کو رسمی کہنا بھی درست نہیں،ڈرون حملے ہمیں کسی صورت قابل قبول نہیں، صدر اوباما سے بھی کہا کہ ڈرون حملے نہیں ہونے چاہیئے،یہ پاکستان کے ساتھ زیادتی اور ظلم ہے،، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ ”امریکی ڈالروں اور عزت نفس میں سے کسی ایک کا چنائو کرنا ہو گا، امریکہ دوست کے روپ میں دشمن ہے جس کی کسی بات پر یقین نہیں، ڈرون حملے چند افراد کا نہیں امن کوششوں کا قتل ہے،، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کا کہنا ہے کہ” نیٹو سپلائی معطل کرنے سے بھی ڈرون حملے نہیں رکیں گے ،عمران خان کا دل طالبان اور تلوار امریکہ کے ساتھ ہے۔
ڈرون حملوں پر تحریک انصاف کی پالیسی میں تضاد ہے،خیبر پختونخواہ حکومت امریکا سے ڈالر لیکر خاموش بیٹھی ہے جبکہ تحریک انصاف ڈرون حملوں پر احتجاج کرکے عوام کو دھوکہ دے رہی ہے،، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کہتے ہیں کہ ”خیبر پختونخواہ حکومت جاتی ہے تو جائے نیٹو سپلائی ضرور بند کریں گے ،ہمارا احتجاج اور نیٹو سپلائی کی بندش ڈرون حملوں سے مشروط ،اب ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ آزادی کی زندگی گزارنی ہے یا غلامی کی؟،،متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کہتے ہیں کہ”دھرنا دینے والی طالبان کی ہمنوا جماعتوں نے انچولی دھماکوں پر احتجاج تک نہیں کیاڈالروں کی بھیک مانگنے والوں میں تحریک انصاف سب سے آگے ہے،مرکزی و صوبائی حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں جھوٹ کی سیاست ترک کرکے قوم کو حقائق سے آگاہ کریں،، ۔جی ہاں باتیں تو سب کی ٹھیک ہیں،قوم نے سب کو ووٹ دیکر دیکھ لیا،اب کی بار عمران خان کو بھی آزمالیا،یہ باتیں میں نے کچی آبادی سے آئے ہوئے ”پتر جمال ،، سے کہیں تو کہنے لگا کہ” عمران خان کو عوام نے موقع ہی نہیں دیا اگر وزیر اعظم ہوتا تو ڈرون مار گرانے کا حکم دیتا،،جس طرح خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت نے نیٹو سپلائی کی بندش سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔
NATO Supply
تحریک انصاف کے کارکن نیٹو سپلائی روٹ پر چلنے والی گاڑیوں کے کاغذات چیک کررہے ہیں ،بالکل اسی طرح عمران خان کی وفاقی حکومت بھی نیٹو سپلائی کی بندش سے لاتعلقی کا اعلان کرتی اور تحریک انصاف کے لیڈر دھرنوں پر خرچ ہونے والی رقم بچاکرکارکنوں کے ذریعے( کاغذی) ڈرون گرارہے ہوتے،اس بات پر مجھے غصہ آیا تو میں نے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ پتر جمال ” بکواس نہ کر،،عمران خان بڑی دور کی سوچ رکھتا ہے؟وہ آئینہ دیکھتے ہوئے ہنس کر کہنے لگاکہ حکومت نے ”وژن 2025 کیلئے قومی مشاورتی کانفرنس میں شرکت کیلئے عمران خان کو دعوت نامہ نہیں بھجوایا،اگر وہ شرکت کرتے تو وزیراعظم کا کنفیوژن اسی طرح دور کرتے جس طرح انہوں نے عام انتخابات سے قبل ایک ٹی وی ٹاک شو میں دو تہائی اکثریت ملنے کا دعویٰ کرکے سادہ کاغذ پر دستخط کیئے تھے،میں نے کہا کہ” پتر جمال تیری یادداشت بڑی چنگی اے،،تو کہنے لگا کہ” پنڈی جاواں گا تے تواڈے لئی وی بادام لیاواں گا،،میں نے کہا کہ غریب آدمی آلو،پیاز، ٹماٹراور دالیں خرید نہیں سکتا،مہنگے بادام کہاں سے منگوائوں گا،اگر ہم امریکیوں سے امداد لینا بند کردیں توغربت اور مہنگائی مزید بڑھ جائے گی، ہمیں نوٹ خود چھاپنا پڑیں گے اور ڈالر 200 روپے کا ہوجائیگا،تمام سیاستدانوں کومل بیٹھ کر نیشنل انٹرسٹ میں بات کرنی چاہیئے،پتر جمال نے جو آخری لیکچر دیا اس نے مجھے خاموش کرادیااگر امریکہ اور افغانستان کی حکومتیں طالبان سے مزاکرات کرسکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں،امن کا موقع گنوانا نہیں چاہیئے۔
جہاں تک بات ہے غریب کی غریب تو پیدا ہی قربانی دینے کیلئے ہوا ہے صرف لیڈروں کے مزے ہیں جومرضی بیان داغ دیں،جب بھی ملک پر مشکل وقت آتا ہے یا آئیگا غریب پہلے کی طرح سب سے آگے کھڑا ہوگا،وفاقی یا چاروں صوبائی حکومتوں میں سے جو بھی نیٹو سپلائی بند کرنے کا دعویدار ہو سب سے پہلے اس حکومت کو امریکی امداد بند کرنے کا اعلان کرنا چاہیئے،لیکن ایسا نہیں ہوگا،صاحبان اقتدار خود قربانی نہیں دینگے،آپ جنہیں نیشنل انٹرسٹ کی بات کا مشورہ دے رہے ہیں۔
ان کے پاس تو پہلے ہی بیرون ممالک کے بنکوں میں ڈھیروں ڈالربھرے پڑے ہیں ”ڈالر 200 روپے کا ہو جائیگا تو فائدہ بھی ان ہی کا ہو گا، ہو سکتا ہے جسے بعد میں نیشنل انٹرسٹ قرار دے دیا جائے۔؟ اگر ہمارے سیاستدان ملک و قوم سے مخلص ہو جائیں بیرون ملکوں پڑی دولت وطن واپس لے آئیں تو ہمیں امریکی امداد کی نہیں بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو ہمارے تعاون اور امداد کی ضرورت پڑے گی، ہمارے ملک سے مہنگائی ،بے روز گاری ختم ہوگی، تعلیم وصحت کی سہولتیں عام ہونگی، دنیا بھر سے سیاح اور سرمایہ کار اس سرسبز و زرخیز اور معدنی وسائل سے مالا مال پرامن ملک پاکستان آئیں گے تو کیا پھر ہمارے سبز ہلالی پرچم اور سبز پاسپورٹ کی دنیا میں قدر نہ ہو گی۔