ایک عورت پر چوری کا الزام ثابت ہوا تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرما دیا۔ صحابہ اکرام نے عرض کیا کہ عورت کا تعلق جس قبیلے سے ہے وہ بہت طاقتور اور مضبوط ہے، شر پھیلنے کا خطرہ ہے اِس لیے در گزر فرمائیے ۔تب میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ربّ ِ کعبہ کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اُس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔ خلیفۂ اوّل حضرت ابو بکر صدیق نے منکرینِ زکواة کے خلاف جہاد کا حکم دیا۔
صحابہ اکرام نے کہا کہ دین نیا نیا پھیلا ہے ، ابھی منکرینِ زکواة کی سرکوبی مناسب نہیں۔ یہ سُن کر صدیقِ اکبر نے فرمایا ”کحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ جس کام کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا ہو اُس سے روگردانی کرے ”۔خلیفۂ دوم حضرت عمر کے انتظامی معاملات کا یہ عالم تھا کہ حضرت خالد بن ولید کو عین اُس وقت معزول کیا جب عراق اور شام کے لوگ اُن کا کلمہ پڑھنے لگے تھے۔ حضرت امیر معاویہ اور حضرت عمرو بن العاص بڑے جید صحابہ تھے لیکن حضرت عمر کا نام سُن کر ہی اُن پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی۔ عمرو بن العاص کے بیٹے نے ایک دفعہ ایک غریب شخص کو بلا وجہ مارا۔ وہ شخص فریادی بن کر حضرت عمر کے پاس گیا۔ آپ نے اسی وقت حضرت عمرو کے بیٹے کو طلب کیا۔ حضرت عمرو بن العاص اپنے بیٹے کے ہمراہ آئے تو حضرت عمر نے اپنا کوڑا اُس غریب آدمی کے ہاتھ میں دے کر فرمایا ”اب تم اپنا بدلہ لے لو۔ بیٹا باپ کے سامنے کوڑے کھاتا رہا اورباپ بے بسی کی تصویر بنا دیکھتا رہا۔
عالمِ اسلام کی تاریخ ایسے بیشمار واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن اِس دَورِ جدید میں ”جس کی لاٹھی ، اُس کی بھینس” جیسا مقولہ ہی عالمِ اسلام سمیت ہر جگہ جاری و ساری نظر آتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں لیکن تارکِ قُرآن بھی ہیں اور تحقیق کہ ہم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس فرمان سے رو گردانی کے مجرم بھی ہیں کہ ”وہ قومیں برباد ہو جاتی ہیں جو زور آوروں سے صرفِ نظر کرتی اور کمزوروں کو سزا دیتی ہیں۔ تاریخ کا یہ سبق ہے کہ ہر وہ حکمران ہمیشہ کامران رہا ہے جس کا عدل کی عملداری پر غیر متذلزل ایمان رہا ہے۔ دُنیا کی تاریخ میں چنگیز خاں انتہائی ظالم اور جابر حکمران کے طور پر جانا جاتا ہے۔ عیسائی تو اُس کے وجود کو ”عذابِ الٰہی ”سے تعبیر کرتے تھے لیکن اُس کے جھنڈے تلے جمع ہونے والے قبائل اُسے ”اوتار” کا درجہ دیتے تھے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اُس اُجڈ، گنوار اور جبر و قہر کے دیوتا نے پچاس اقوام کے لیے ایک دستور بنایا اور پھر اُس پر عمل کرکے بھی دکھایا۔ وہ تو ان پڑھ ، اُجڈ ، گنوار اور وحشی تھا لیکن ہم تو اُس دَورِ جدید میں بس رہے ہیں جہاں عقیل و فہیم اصحاب اپنے فکر و تدبر کے زور پر آئین مرتب کرتے اور پھر اسی آئین کی سرِ عام دھجیاں بھی بکھیرتے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ آئین میں طرح طرح کی مو شگافیاں کرکے اُس کو مَن مرضی کے قالب میں ڈھالنے والے بھی یہی عقیل و فہیم ہی ہوتے ہیں۔
Pervez Musharraf
حکومتِ وقت نے آمر مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کا ارادہ باندھ کر گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ۔ہر طرف ہا ہا کار مچی ہے، نت نئے شگوفے چھوڑے جا رہے ہیں اور تجزیہ نگاروں کی تان ہمیشہ اسی پر ٹوٹتی ہے کہ مشرف کو سزا ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ آرٹیکل چھ کی زد میں صرف پرویز مشرف ہی نہیں اور بھی بہت سے نامی گرامی لوگ آتے ہیں ۔سوال مگر یہ ہے کہ اگر ایک ہزار لوگ بھی اِس آرٹیکل کی زد میں آتے ہیں تو کیا اُنہیں محض اِس لیے چھوڑ دیا جائے کہ وہ بہت زور آور ہیں ؟۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر کیوں نہ اِس مملکتِ خُدا داد میں دو آئین مرتب کر لیے جائیں ایک اشرافیہ کا آئین، دوسرا عامیوں کا۔اگر ایسا ممکن نہیں اور ہم نے آئین نامی مقدس کتاب پر بہر صورت عمل کرنا ہے تو یہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب حکمران بلا امتیاز کارروائی کا ارادہ کر لیں لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ ”مشرفی آمریت” سے لے کر اب تک سب کچھ وہی ہے ، بدلا کچھ بھی نہیں۔ مشرف نے کہا کہ اگر ہم نے امریکہ کی بات نہ مانی تو وہ ہمیں پتھر کے زمانے میں دھکیل دے گا۔
ہمارے موجودہ حکمران بھی کم و بیش یہی کہتے نظر آتے ہیں ۔حکومتِ وقت کے وزیرِ اطلاعات جناب پرویز رشید بار بار دہائی دے رہے ہیں کہ نیٹو سپلائی کی بندش سے ہم صرف امریکہ ہی نہیں، پچاس نیٹو ممالک کو بھی ناراض کر دیں گے جن میں ہمارا دوست ترکی بھی شامل ہے۔ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نیٹو کنٹینرز میں اسلحہ نہیں راشن سپلائی کیا جا رہا ہے ۔گویا اُن کے خیال میں دشمن کو پالنا پوسنا عین عبادت ہے۔
میں کبھی بھی تحریکِ انصاف کا ثناخواں تھا، نہ آج ہوں ۔میری آرزوؤں اور امیدوں کا محور و مرکز آج بھی نواز لیگ ہی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ میں میاں برادران کو ابھی تک ”میڈ اِن پاکستان” ہی سمجھتا ہوں اور میرا حسنِ ظَن یہی ہے کہ منجھدھار میں پھنسی اِس کشتی کے پتوار جِن ہاتھوں میں ہیں وہ انشاء اللہ جلد یا بدیر اسے پار لگا دیں گے ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قوم آہستہ آہستہ مایوس ہو کر تحریکِ انصاف کی طرف دیکھنے لگی ہے ۔تحریکِ انصاف سے تمام تر اختلافات کے باوجود میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ نیٹو سپلائی کی بندش کے حوالے سے محترم عمران خاں نے جو قدم اٹھایا ہے، قوم کی غالب اکثریت اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ یہ بجا کہ ایسے دھرنوں سے امریکہ کی غنڈا گردی پر کچھ اثر نہیں ہونے والا لیکن اقوامِ عالم کو بہرحال یہ پیغام ضرور پہنچ رہا ہے کہ پاکستانی قوم ڈرون حملوں سے شدید نفرت کرتی ہے اور اسے ملکی خود مختاری کی صریحاََ خلاف ورزی سمجھتی ہے ۔اگر اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو تحریکِ انصاف مرکزی حکومت کے ہاتھ مضبوط ہی کر رہی ہے کیونکہ عالمی طاقتوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے اور امریکہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے اِس قومی نا پسندیدگی کو بطور جواز پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کے نادان دوست محاذ آرائی پر اتر آئے ہیں حالانکہ قومی یکجہتی کی جتنی آج ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ اگر ہم واقعی طالبان سے مذاکرات اور ڈرون حملے رکوانے میں سنجیدہ ہیں تو پھر حکمرانوں کو وہ انداز اپنانا چاہیے جو وزیرِ داخلہ محترم چوہدری نثار احمد کا ہے نہ کہ جنابِ پرویز رشید اور رانا ثناء اللہ کا سا انداز۔ رانا ثنا اللہ صاحب جنہیں میں نواز لیگ کا ”راجہ ریاض” سمجھتا ہوں، فرماتے ہیںکہ ”سونامی بدنامی بن چکا ہے۔
عمران خاں اور شیخ رشید حواس باختہ ہو چکے ہیں۔ شیخ رشید صاحب کی حواس باختگی تو سب پر عیاں ہے اور ہم بھی ٹاک شوز میں اُن کی بڑھکوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ محترم عمران خاں پرشعور کی پختگی آہستہ آہستہ طاری ہوتی جا رہی ہے۔ 23 نومبر کے جلسے میں خاں صاحب نے حیرت انگیز طور پر وہ انداز نہیں اپنایا جسے ہم اُن کی سرشت میں شامل سمجھ بیٹھے تھے۔
اُنہوں نے اُسی جلسے میں شیخ رشید کی میاں برادران کے خلاف بڑھکوں پر انتہائی نا پسندیدگی اور نا گواری کا اظہار کیا اور بار بار محترم وزیرِ اعظم صاحب کو قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے کہا۔اُن کی دلی درد میں ڈوبی تقریر پر کسی نے تنقید نہیں کی سوائے رانا ثناء اللہ اور محترم پرویز رشید کے۔ شاید رانا ثناء اللہ صاحب کو محترم عمران خاں اِس لیے حواس باختہ نظر آنے لگے ہیں کہ اب وہ اپنا اندازِ گفتگو بدل کر ایک مدبر کے روپ میں اُبھر رہے ہیں۔