وطن عزیز کی روز بروز بگڑتی حالت زار پر رونا آرہا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ہمارے ”کرم فرما ” سیاستدانوں نے اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ باوجود قدرتی وسائل کے ہم من حیث القوم بھکاری ہو گئے ہیں اس وقت ملکی سلامتی دائو پر لگی ہوئی ہے اور امریکہ مسلمان ملکوں خاص کر پاکستان پر چڑھ دوڑنے کے لیے بے تاب ہے کا ش ہمارے ”غیور ” حکمرانوں کے کانوں پر جوں رینگتی اور وہ بھی احساس کر لیتے کہ اپنی غیرت و حمیت کو کبھی گروی نہیں رکھیں گے کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے تو ملی غیرت و حمیت کا جنازہ نکال کے رکھ دیا ہے۔
صلیبی سامراج کے ہم نوا حکمرانوں اور ہم خیال دانشوروں نے سفلی اور وقتی بلکہ جزوقتی مفادات کے حصول کی آس میں عالم اسلام کے سادہ لوح مسلمانوں کے مستقبل کو دائو پر لگا دیا ہے ،ان مفادات کی حیثیت دھوپ کے چوراہے میں بالائے بام رکھی برف کی اس سل سے زیادہ نہیں جو لمحہ لمحہ اور قطرہ قطرہ پگھل کر بھاپ بن جاتی ہے ان دنیا دار دانشوروں اور ”درباری علاموں ” کی تمام تر مادی ثروتیں ارباب ِ حق کی نگاہ میں کیا حیثیت رکھتی ہیں ؟آئیے ! یہ جاننے کے لیے باب العلم ، صاحب نہج البلاغہ ، فاتح خیبر اور حامل ذوالفقار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بارگاہ امامت میں حاضر ہوں ، فر ماتے ہیں ”تمہاری یہ دنیا اور اس کا جلال و جمال میرے نزدیک کوڑھ زدہ شخص کے ہاتھ میں پکڑی سور کی انتڑیوں سے بھی حقیر ہے ”ہذیان گو شرابی دانشور یا غامدی ایسے خانہ ساز عبقری کی رائے پرِ کاہ سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی ، ارشاد ربانی ہے ”اے ایمان والو !یہود و نصاریٰ کو دوست مت بنائو ، یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو کوئی ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہی میں سے ہو گا ، بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ، پھر جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے تو ان کو دیکھتا ہے کہ وہ دوڑ دوڑ کر ان سے ملے جاتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہم پرزمانے کی گردش نہ آجائے ۔سو، قریب ہے کہ اللہ فتح دے یا اپنے ہاں سے کوئی حکم بھیجے پھر وہ ان پر نادم ہو جائیں گے ، جسے اپنے دل میں چھپاتے تھے ” (المائدہ 50/51) حُب جاہ اور حُب مال بعض اوقات انسان کو عبرتناک انجام سے دو چار کر دیتا ہے اور اس حقیقت کو قرآن میں بھی یوں بیان کیا گیا ہے کہ انسان دوسروں کے انجام کو دیکھ کر بھی عبرت نہیں پکڑتا ،ابھی چند عشرے پہلے کرنل قذافی کا لیبیا میں ایک ہیرو کے طور پر ظہور ہوا تھا ایک انقلابی کے طور پر انہیں بڑی قدرو منزلت ملی لیکن اقتدار سے یوں چمٹے کہ پھر واپسی کا راستہ ہی بھول گئے اور شاید خواہش یہ تھی کہ آخری سانس تک اقتدار اپنے پاس رکھا جائے لیکن وہ بھول گئے تھے کہ قدرت کے قوانین اٹل ہوتے ہیں ان میں ہمارے آئین کی طرح ترامیم نہیں ہوا کرتیں اور قدرت کے ان قوانین میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ بڑے سے بڑا با جبروت حکمران بھی جب عوام کی گردنوں پر پیر تسمہ پا کی طرح سوار ہو جائے گا تو بالآخر زوال کو اس کا مقدر بنا دیا جائے گا۔
ایک زمانے میں فاطمیوں ، امویوں اور عباسیوں کا طوطی بولتا تھا تینوں خاندانوں نے لمبے عرصے تک اقتدار کے مزے لوٹے ، لیکن آج ان کا اقتدار کہاں ہے؟ برِ صغیر میں مغل آئے تو تھوڑے ہی عرصے میں انہوں نے یہاں کا اقتدار حاصل کر لیا، سات سو سال تک باپ کے بعد بیٹا، بیٹے کے بعد پوتا اور پوتے کے بعد اس کا بیٹا حکومت کرتے رہے لیکن جب زوال شروع ہوا تو آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی حکمرانی سمٹ کر صرف دلی تک رہ گئی دلی سے سمٹی تو وہ لال قلعے تک محدود ہو کر رہ گئے اور لال قلعے سے نکالے گئے تو اس عالم میں کہ وہ انگریزوں کے سامنے کسی مجرم کی طرح سر جھکائے کھڑے تھے اور ان کے سامنے ان کے جوان بیٹوں کے سر سونے کی بڑی بڑی تھالیوں میں رکھ کر پیش کیے جا رہے تھے، بد نصیبی نے پھر بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور وہ رنگون( کالا پانی ) میں عمر قید کاٹنے کے لیے بھیج دیئے گئے ظفر شاعر تھے اور اپنی بد نصیبی پر اشعار لکھنا چاہتے تھے لیکن قید کرنے والوں نے قلم اور دوات کی سہولت بھی نہ دی۔
کوئی انہیں جلے ہوئے کوئلے دے جا یا کرتا تھا انہیں سے قید خانے کی دیواروں پر اپنے حسبِ حال شعر لکھا کرتے تھے جن میں ایک یہ بھی ہے
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
Muammar Gaddafi
چشم فلک نے ایک زمانے میں تا تا ریوں کا طوطی بولتا دیکھا ان کا نام سُن کر بڑے بڑے حکمرانوں کے پتے پانی ہو جایا کرتے تھے لیکن آج تاتاری اور ان کا اقتدار کدھر ہے ؟ درحقیقت انسان کو دوام ہے نہ اقتدار کو اور انسان ان دونوں حقیقتوں کو خوب جانتا اور مانتا ہے لیکن حریص اتنا ہے کہ جیتے جی اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا حسنی مبارک ہوں یا کرنل قذافی اگر اپنے عروج کے زمانے میں ہی اقتدار کسی دوسرے اہل آدمی کو سونپ دیتے تو ان حالات سے قطعی دو چار نہ ہوتے ،اگردیکھتی آنکھوں اور سُنتے کانوں سے بین الاقوامی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت دنیا میں 36امیر ترین وہ لوگ ہیں جو دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں ان عیاش ترین اور اوباش حکمرا نوں کی دولت ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اثاثوں سے بھی زیادہ ہے اور حسنی مبارک اس شاہانہ فہرست میں پہلے نمبر پرآنے کا اعزاز حاصل کر چکے تھے ان کے اثا ثوں کی مالیت 70بلین ڈالر تھی اور یہ تمام رقم حسنی مبارک نے مصر کے عوام کی رگوں اور اپنے پالے گئے ٹھگوں سے کمائی تھی مگر آج دنیا کے 36امیر ترین حکمرانوں میں سے پہلے نمبر پر آنے والے حسنی مبارک کا انجام دیکھ لیں کہ وہ اور ان کی اہلیہ شرم الشیخ کے ہسپتال میں سسک سسک کر زندگی گزار ی اور اپنی آنکھوں سے اپنی حسرتوں، خواہشوں، کامیابیوں کو ذبح ہوتے دیکھتے رہے ہیں عبرت ہے ہمارے ان حکمرا نوں کے لیے جو سرکاری پٹرول پمپس تک ہڑپ کر گئے، این آئی سی کو نہیں چھوڑا اور تو اور حاجیوں کو بھی نہیں بخشا گیا اس سے زیادہ بے حسی اور ہوس زر کیا ہوگی۔
موجودہ حکومت کو دیکھ لیں پانچ سالوں میں عوام کو کچھ بھی ڈلیور نہیں کر پائی ، پانچ سال پورے کریں گے ، ہر حال میں پورے کریں گے کی رِٹ نے غریب عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے بلکہ اب تو غریب کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہو گیا ہے حکمران یہ سمجھتے رہے ہیں گو یا عوام کوکچھ ڈلیور کرنا ضروری نہیں پانچ سال پورے کرنا ضروری ہیں مہنگائی کی شرح میں حیران کُن حد تک اضافہ اور دیگر مسائل کے باعث پا کستان میں حالیہ چند برسوں کے دوران خود کشی کا رحجان خطر ناک حد تک بڑھ گیا ہے اور زرداری حکومت کے پہلے سال میں تقریباََ سات ہزار افراد نے اپنی زندگی پر موت کو ترجیح دی ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پا کستان میں غربت اور مختلف پر اسرار بیماریوں سے تنگ افراد میں خود کشی کا رحجان بڑھ رہا ہے لوگوں کو بیماریوں کے علاج کے لیے اپنی کمائی اور بچت کا زیادہ تر حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے با وجود بیما ریوں کے شکنجے سے نہیں نکلتے ، پاکستان میں 34فیصد اموات دل کی بیما ریوں سے ہوتی ہیں جبکہ ذیابیطس کے حوالے سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور ملک میں شہری علاقوں کی 16.5فیصد اور دیہی علاقوں کی 13.9فیصد آبادی اس مرض میں مبتلا ہے۔
مرکز یقین ، کشور حسین ، پاک سر زمین پاکستان میں ٹیکس ادائیگی کا یہ حال ہے کہ بمشکل ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں بد عنوان اشرافیہ مفادات کا تحفظ اور نجی دولت کی نگرانی کرتی ہے ضروری فنڈز کا گلا گھونٹا جاتا ہے ، پاکستان میں ٹیکس دینا ایک نا پسندیدہ عمل گردانا جاتا ہے مجموعی قومی پیداوار کا 10فیصد سے کم حصہ ٹیکس ریونیو سے حاصل ہو تا ہے جو دنیا میں انتہائی کم ترین شرح میں سے ایک ہے ، ،ہم آج تک ڈرون حملوں کو نہیں روک سکے اور نہ پارلیمنٹ کی قرا رداد پر عمل کر سکے ہیں حکمران کہتے رہے ہیں کہ ہم ڈرون حملے نہیں روک سکتے ہمارے پاس صلاحیت نہیں ہے
جبکہ فوج کے اعلیٰ افسران کہتے ہیں کہ حکومت اجازت دیتی تو ایک منٹ سے پہلے ڈرون گرائے جا سکتے تھے ، آخر یہ کھلا تضاد نہیں ہے ؟کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں سینکڑوںسیاسی کارکن اور ہزاروں بے گناہ شہری مارے گئے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے مگر ذمہ داران کا تعین نہیں ہو سکا ، حکمرا نوں نے کبوتر کی طرح اپنی آنکھوں کو بند کر رکھا تھا اور اب ”نگران ”بھی صرف برائے نام نگرانی کر رہے ہیںاور امریکہ ،اسرائیل اور بھارت کے دہشت گرد آتے ہیں اور رات کی تنہائیوں میں اہم ترین جگہوں پر حملہ کر کے سب کچھ تہس نہس کر کے چلے جاتے ہیں اور ہمارے حکمران دیکھتے رہ جاتے ہیں اگلے روز وزارت خارجہ کی طرف سے بیان جاری ہو جاتا ہے کہ بہت جلد اصل مجر موں کو پکڑ لیا جائے گا مگر پھر وہی ”ڈھاک کے تین پات ” والی بات ہو کر رہ جاتی ہے۔
پاکستان کی جیلوں میں پھانسی کا انتظار کرنے والوں کی تعداد 8000تک پہنچ گئی ہے جن میں سے آدھے پنجاب کی جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں پاکستان کی 91 جیلوں میں قیدیوں کی گنجائش ساڑھے 42ہزار سے زیادہ نہیں مگر ان میں ساڑھے 75ہزار قیدی ٹھونسے گئے ہیں 67خود کش حملوں میں 1159لوگ مارے گئے اور 5000شدید زخمی ہوئے ، مزے کی بات تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے 87ارکان نے مسلسل اور متوتر خاموشی اختیار کئے رکھنے کا ریکارڈ قائم کیا ،اِن 87حلقوں کا کیا حال ہو گا جہاں کے ”غریب پرور ” نمائندگان نے اپنی عوام کی سہولت کے لیے زبان تک نہیں کھولی اور معصوم صورت بنائے پارلیمنٹ میں بنے نقش و نگار کا بغور معائنہ کرتے رہے اور سردیوں میں گرم ترین اور گرمیوں میں سرد ترین ماحول اور ٹی اے ڈی اے کا لطف لیتے رہے نہ جانے اِن نمائندگان نے اپنے حلقے کی عوام سے کیا کیا وعدے کیے ہوں گے اور حلقے کی ابتر صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیا منصوبے اپنے کُند ذہنوں میں گھڑے ہوں گے ؟اب مزے کی بات یہ ہونی چاہیے کہ جب یہ نمائندگان اپنے اپنے حلقوں میں جائیں تو عوام ان کا سواگت ”اچھے ” انداز سے کرے تاکہ ایسے ”غریب پرور ” نمائندگان کی طبیعت ٹھکانے لگے ! خیر چھوڑیے اِن باتوں کو اُس پارلیمنٹ کا کیا حال ہو گا جس کے 54ارکان اسمبلی کی اسناد جعلی قرارپائیں۔
صحت کے سرکاری بجٹ میں گزشتہ سال کے بجٹ سے 27فیصد کمی کی گئی ہو ،جس کی وجہ سے کم از کم 4ہزار ڈاکٹر ز ملک چھوڑ کے بیرون ممالک چلے گئے ہیں لیکن دوسری طرف ہمارے صدر مملکت آصف علی زرداری کی دونوں بہنوں فریال تالپور اور ڈاکٹر عذرا فضل پیچو ہوجو رکن قومی اسمبلی بھی رہی ہیں کے اثاثوں میں ایک سال کے دوران 9کروڑ کا اضافہ ہوگیا ہے یہ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ”بھائی صاحب ” کے اثاثوں کی بڑھوتری کا عالم کیا ہو گا ؟حبیب جالب مرحوم نے کہا تھا کہ۔۔۔۔
تم سے پہلے بھی یہاں کوئی تخت نشیں تھا اس کو بھی خدا ہونے کا اِتنا ہی یقیں تھا