برما کے مسلمانوں کی داستانِ اَلم

Burma

Burma

چند روز قبل ایک اخبار میں برما (میانمار) میں مسلمان نو جوان لڑکیوں کے ساتھ وہاں کے خونخوار درندوں اور خونچکاں بھیڑیوں نے حوا کی بیٹیوں کو بڑی بے دردی، سفاکی اور وحشیانہ انداز میں ان کے جسموں کو نو چا اور اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کر ڈا لا اور ان کی برہنہ لاشوں کو چھوڑ کر چلے گئے۔ رونگٹے کھڑی کر دینے والی یہ بری خبر دل ودماغ پر بوجھ بن کر کچوکے لگاتی رہی۔ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کئی سالوں سے جاری ہے اور نہیں معلوم یہ خون آشام کہا نی کب تک جاری رہے گی۔ اس روح فرسا دل دہلا دینے والے اور دماغ مائوف کر دینے والے منظر نامے کے سامنے حجاج بن یوسف، چنگیز خان اور ہلا کو خان کے ضرب المثل بد ترین مظالم بھی مات ہوتے اور گہناتے محسوس ہوئے۔

یہ وہی برماکے لوگ ہیں جنھوں نے ستمبر 1947ء میں جب پاکستان نیا نیا معرض وجود میں آیا تھا ہما ری خوراک کی قلت دور کرنے کیلئے 4750 ٹن چاول مہیا کیا تھا لیکن آج میانمار میں مردو خواتین، بچوں، بوڑھوں کا قتل عام گا جر مولی کی طرح ہو رہا ہے ،600 سے زائد مساجد بند کر دی گئی ہیں، قرآن پڑھنے اور سننے پر پابندی لگا دی گئی ہے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا جا چکا ہے، تین لاکھ نوے ہزار مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوئے، اب تک چودہ ہزار مسلمان خاندانوں کو زندہ جلا یا جا چکا ہے۔ برما کی فوج نے بڑ ی ڈھٹا ئی سے مسجدوں کی بے حرمتی کی، مساجد و مدارس کی تعمیر پر قدغن لگا دیا، اسپیکر پر اذان ممنوع قرار دی گئی، مسلم بچے سرکاری تعلیم سے محروم کر دیئے گئے، ان پر ملازمت کے دروازے بند کر دیئے گئے ۔1982ء میں اراکان کے مسلمانوں سے حق ِ شہریت بھی چھین لیا گیا۔ اس کے علاوہ اور بہت سے مظالم میانمار کے مسلمانوں پر ہر روز آزمائے جا رہے ہیں جن کا تصور کر کے روح کانپ جاتی ہے۔

برما نے 1938 ء میں انگریزوں سے خود مختاری حا صل کی، آزادی کے بعدبرمی فوج اور انتہا پسند بدھ بھکشوں نے ”مسلم مٹا ئو پالیسی ”کے تحت اسلامی شنا خت مٹانے کی خاطر مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، برما میں نہتے مسلمانوں کا خون پوری دنیا نے میڈیا پر دیکھا لیکن سب خا موش تماشائی کے علاوہ کچھ نہیں۔ مختاراں مائی ریپ کیس ار ملالہ کے واقعے پر پاکستانی گو رنمنٹ ،او آئی سی ،اقوام متحدہ ،انسانی حقوق کے علمبردار اداروں اور میڈیا نے وہ دہائی مچائی ،آہ و فغاں کے پرچم بلند کئے اور ہاہا کار کے وہ طومار باندھے کہ خدا کی پناہ، مختاراں اور ملالہ کو سونے میں تو لا گیا ،بلا شبہ ایسا ہونا چاہیے تھا اور مجرموں کو کٹھرے میں کھڑا کر کے کڑی سزا دینی چاہیے تھی لیکن برما کی مسلم خواتین اور نوجوان لڑکیوں کے ساتھ جو جنسی درندگی کا کھیل کھیلا گیا اور پھر انہیں وحشایا نہ انداز میں قتل کیا گیا،ان مین مختاراں مائی اور ملالہ کا عکس نظر نہیں آتا تھا اور ان کی ظلم کی داستانوں کو سننے کیلئے کان بہرے ہو گئے تھے، گورنمنٹ خاموش، او آئی سی خاموش، اقوام متحدہ خاموش، عالمی برادری اور انسانی حقوق کے دعویداروں نے تو جیسے آنکھو ں پر پٹی اور کانوں میں روئی ٹھو س رکھی ہے۔

Burma Killings

Burma Killings

کسی کو دادرسیِ کی توفیق و ہمت نہ ہوئی۔ میانمار میں بودھ دہشت گردوں نے مسلم اکثریتی علاقوں میں ادوھم مچا رکھا ہے، لوٹ مار، آتشزنی، مسلمان مردو خواتین اور بچوں کے وحشایانہ قتل عام کا بھیانک سلسلہ ہنوز جاری ہے ہزاروں مسلمان لقمہ اجل بن چکے ہیں مگر امن و سکون کے داعی بودھ عوام اور ان کی حکو مت خاموش تما شاہی دیکھتی رہی ہے مسلم حکمرانوں نے نے تو جیسے قسم اٹھا رکھی ہے کہ کہیں بھی کچھ بھی ہو جائے وہ اپنے منہ پر لگا سکوت ہر گز نہیں تو ڑیں گے ،لے دے کر صرف پاکستان میں چند احتجاجی مظاہرے ہوئے عوام نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا لیکن بات وہی زبانی بیان بازی اور نعروں سے کچھ نہیں ہو گا۔

ہر سال انسانی حقوق کے عالمی دن صرف سمینارز اور فرضی کاروائیوں تک موجود ہیں ،دنیا کے سامنے اپنی ریا کاری،منافقت،جھو ٹ اور مکرو فریب پر پردا ڈالنے کا ڈرامہ اور ڈھونگ ہے اور لوگوں کی آنکھو میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے ،کیا میانمار کے نہتے لاکھوں مسلمانوں کا خون، کشمیری عوام کا قتل، فلسطین، عراق اور افغانستان کی خون آلود جنگوں کا نقشہ ان کو نظر نہیں آتا، ان واقعات پر ان نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں کے سر پر جوں بھی نہیں رینگتی اور ان مظالم پر ان کو سانپ سونگ جاتا ہے عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کیلئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

دنیا میں مسلم آبادی ڈیڑھ عرب سے زائد ہے جو ایک حیثیت رکھتی ہے ،کہیں ارشاد ہوتا کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور کہیں ارشاد ہوتا ہے کہ مسلمان ایک جسد ِ واحد کی طرح ہیں اگر جسم کے کسی حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم بے قرار اور شَل ہو جاتا ہے لیکن ہم اپنی انا پرستی خود ساختہ مسالک و مذاہب کی بھو ل بھلیوں میں اپنا اصل صراط مستقیم کا راستہ اور مقام بھی کھو بیٹھے ہیں۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک ِ ک اشغر

Salman Ahmed Shaikh

Salman Ahmed Shaikh

تحریر : سلمان احمد شیخ
salmanmedia@hotmail.com