اساتذہ کو کسی بھی معاشرے کا معمار سمجھا جاتاہے اور اساتذہ ہی کی وجہ سے ہی کسی قوم یا ملک کا مستقبل بنایا بگڑتا ہے اساتذہ ہی قوموں کی ترقی کے ضامن ہوتے ہیں اس لیے اساتذہ کسی معاشرے کا اہم کردار ہوتے ہیں استاد کو ہمارے دین میں بھی بہت اہم مقام حاصل ہے۔
استاد کو روحانی باپ کہا گیا ہے لیکن 28 نومبر 2013 کواس وقت دلچسپ صورتحال دیکھنے کو سامنے آئی جب ہزاروں اساتذہ جن میں خواتین ومرد دونوں اساتذہ تھے لاہور میں مال روڈ پر شدید احتجاج کیا اور سینہ کوبی کرتے رہے ان اساتذہ کا مطالبہ تھا کہ ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے اور ان سے غیر تدریسی ڈیوٹیاں نہ کروائی جائیں۔
ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ان پڑھ سیاستدانوں کو ان پر مسلط نہ کیا جائے اس کے علاوہ اساتذہ نے بلدیاتی الیکشن میں بھی ڈیوٹیاں نہ دینے کی دھمکی دی ہے یاد رہے یہ احتجاج پنجاب ٹیچر آف ایسوسی ایشن کی کال پر کیا گیا ہے اس احتجاج میں انھوں نے 19 نکاتی ایجنڈا بھی پیش کیااوحکومت کو 15 دنوں کا الٹی میٹم بھی دیا گیا حکومت کو دھمکی بھی دی گئی کہ ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو سکول کے بچوں کو لے کرروڈ پر احتجاج کریں گے اور دھرنا دیں گے اگر اساتذہ نے ایسا کیا تو اس سے بچوں کا تدریسی عمل بری طرح متاثر ہو گا جو بچے سکول میں صرف اپنی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں ان کو غیر تدریسی سرگرمیوں کا حصہ بنایا جائے گا۔
Teachers Protest
بچوں کا دھیان پڑھائی کی بجائے ان غیر تدریسی سرگرمیوں کی طرف چلا جائے گا جس کی وجہ سے ان کی پڑھائی شدید متاثر ہو گی لہذا اساتذہ کو چاہیے کہ اس سارے عمل میں بچوں کونہ شامل کیا جائے کیونکہ وہ صرف پڑھنے کے لیے آتے ہیں اگر ان کو اس عمل میں شامل کیا جاتا ہے تو اس سے ان پر برے اثرات مرتب ہوں گے اور پڑھائی ان کی ترجیح نہیں رہے گی۔
اپنے حقوق کے لیے جدوجہد اور احتجاج کرنا یہ آپ کا حق ہے کیونکہ آپ کی ہی وجہ سے کوئی بھی معاشر مہذب بنتا ہے اگر آپ اچھی تعلیم وتربیت دیں گے تو اس کے ملک، قوم اور معاشرے پر بہترین اثرات مرتب ہوںگے اور معاشرے میں جہالت اور برائیوں کا خاتمہ ہو گا آپ ہی وجہ سے ان پڑھ معاشرہ ایک پڑھا لکھا اور تہذیب یافتہ معاشرہ بن جاتا ہے۔
اس لیے آپ سے گزارش کی جاتی ہے کہ تمام احتجاجی عمل سے بچوں کو دور رکھا جائے حکومت کو چاہیے کہ وہ اساتذہ کے جائز حقوق اور مطالبات کو فوراً تسلیم کرے اور اساتذہ کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے تا کہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی آسانی سے بسر کر سکیں اورنہ ہی ان کی غیر تدریسی ڈیوٹیاں لگائی جائیں اوران کو وہ مقام دیا جائے جس کے وہ حق دار ہیں۔