جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بنتے ہی ماضی میں جمہوری حکومتوں کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے مونچھوں والے جرنیلوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے شروع ہو گئے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر فوجی مارشل لاء لانے والے جرنیلوں کے متعلق دلچسپ انکشاف کیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان میں مارشل لاء لگانے والے ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف ”مونچھوں” والے فوجی جرنیل ہیں۔
مونچھ مردوں کا عالمی ورثہ ہے، برصغیر پاک و ہند میں تو مونچھیں مردانگی اور طاقت کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ قدامت پرست آج بھی ”مُچھ منّے” (بغیر مونچھوں والے) کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ شریف النس ہونے کی دعویدار عام حالات میں داڑھی ہو سکتی ہے، مونچھ نہیں لیکن آج کل اس بات پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
برصغیر پاک و ہند کے بعض علاقوں میں اگر شوہر کی مونچھ نہ ہو تو خاتونِ خانہ اُسے گھر میں گھسنے ہی نہیں دیتی۔ پاکستان کی سیاست میں بھی مونچھوں کا کمال ہمیشہ سے اہم رہا ہے اور آج بھی ہے۔ ایوب خان اور محمد خان آف کالا باغ کی مونچھیں کسے یاد نہیں۔
اقتدار کی سلور سکرین پر جب ضیا ء الحق کو دیکھا گیا تو اس کی مونچھیں بھی ان کا طرۂ امتیاز تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو تو کہتے تھے کہ میں ضیاء الحق کی مونچھوں کے تسمے بنا دوں گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ زرداری صاحب کی مونچھیں بھی اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز میں موضوعِ گفتگو رہیں۔
جوں جوں ان کا اقتدار اور سیاسی کردار طویل ہوتا گیا، مونچھوں کے گھنے پن اور سائز میں بھی کمی واقع ہوتی چلی گئی۔ پیپلز پارٹی میں اگر نوید قمر کی مونچھیں قابلِ دید ہیں تو مسلم لیگ (ن) کے رانا ثناء اللہ بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ پاکستان میں جمہوری حکومتوں کا تختہ اُلٹنے کے حوالے سے مونچھوں والے فوجی جرنیل ہمیشہ ہی موضوعِ بحث رہے ہیں۔
آمریت داڑھی والے کی ہو یا مونچھوں والے کی آمریت ہی ہوتی ہے مگر یہ عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان میں چاروں مارشل لاء مونچھوں والوں نے ہی لگائے ہیں۔ بغیر مونچھوں والے جرنیلوں میں اسلم بیگ، آصف نواز اور پرویز کیانی مارشل لاء سے دور ہی رہے۔ جنرل آصف نواز کی مونچھیں نہیں تھیں، لیکن ان کو مارشل لاء لگانے کی سرعام دعوتیں دی گئیں۔
اسی طرح ماضی میں کئی موقعے آئے جب افواہیں اُڑیں کہ جنرل کیانی حکومت کا تختہ اُلٹنے والے ہیں لیکن ایسی نوبت نہیں آئی۔ نئے ملک کے عالم وجود میں آنے کے کم و بیش دس سال بعد ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کا جو سلسلہ شروع کیا، اس کی دھمکی اب بھی محسوس کی جاتی ہے۔
Zia-ul-Haq
ایوب خان کے بعد یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے ایسے حالات پیدا کیے جن میں فوج کے سامنے عوامی طاقت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ 1958 ء میں ایوب خان نے سکندر مرزا کو پہلے صدر کے عہدے سے معزول کر کے جلا وطن کیا۔ اس کے بعد ایوب خان کے دس سالہ دور کی ابتداء ہوئی۔ اتفاق دیکھئے کہ ایوب خان کی مونچھوں سے جو بات شروع ہوئی تھی اس کا تسلسل 1999 ء تک جاری رہا۔ ایوب خان نے 1962ء کے آئین کے تحت اقتدار سپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرنا تھا مگر یہاں وہ فاش غلطی کی گئی جس کا خمیازہ پاکستان کو اکہتر میں بنگلہ دیش کی صورت میں بھگتنا پڑا اور اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کیا گیا۔
یوں اس طرح ایک بار پھر مونچھیں غالب آئیں۔ اس کے بعد اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کرکے ملک کو سول مارشل لاء کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ اُنہوں نے آٹھویں نمبر پر ضیاء الحق کو آرمی چیف بنا کر میرٹ کی دھجیاں اُڑا دیں۔
اس طرح ایوب خان کے بعد ایک اور مونچھوں والے جرنیل نے ایک عوامی وزیر اعظم کے تحت کو تختے میں بدل ڈالا اور مونچھوں کی گھنی چھائوں گیارہ برس تک اس ملک پر چھائی رہی۔ مونچھوں والی سرکار بالآخر فانی تھی اور فنا کے سمندر میں ڈوب گئی اور پھر جمہوریت کی میوزیکل چیئر یکے بعد دیگرے ہوتی رہی۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں نواز شریف دو تہائی اکثریت لے کر ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔
خیال تھا کہ اب تاریخ کا راوی چین ہی چین لکھے گا مگر انسان غلطی کا پتلا ہے۔ وہی غلطی ایک بار پھر نواز شریف نے دہرائی اور جنرل جہانگیر کرامت کو گھر بھیج دیا۔ نواز شریف نے علی قلی خان کو چھوڑ کر فہرست میں نچلے درجے کے ایک جرنیل کو آرمی چیف بنا کر ملک ایک بار پھر مونچھوں والے کے حوالے کر دیا اور پھر اُسی جرنیل نے نواز شریف حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا۔ آج ایک بار پھر میاں صاحب اُسی موڑ پر کھڑے نظر آئے۔
نئے آرمی چیف کی نامزدگی سے پہلے اُن کی فہرست میں تینوں جرنیل ہارون اسلم، ارشاد محمود اور راحیل شریف مونچھوں والے تھے۔ غالب امکان یہی تھا کہ میاں صاحب میرٹ کو فوقیت دیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا اور تیسرے نمبر کے جرنیل راحیل شریف ملک کے تیرہویں آرمی چیف بنا دیئے گئے۔ آرمی کمان کی تبدیلی کے موقع پر سنیارٹی متاثر ہونے پر لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔
نئے آرمی چیف ملک کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے نشانِ حیدر کا اعزاز پانے والے میجر شبیر شریف شہید کے چھوٹے بھائی اور میجر عزیز بھٹی شہید کے بھانجے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کی پاک فوج کے لیے گراں قدر خدمات ہیں۔ وہ سیاست سے دور اور کٹر بھارت مخالف شخصیت تصور کیے جاتے ہیں جنہوں نے بھارت کی دس سال محنت کے بعد بننے والی جنگی حکمت عملی کو دس دنوں میں ناکام ثابت کیا۔
یہی وجہ ہے کہ اُن کی تعیناتی کو بھارت میں خاصی دلچسپی سے دیکھا گیا۔ شہدا ء کے خاندان سے پہلا آرمی چیف بننا ایک خوش آئند اقدام ہے لیکن اگر اس تعیناتی پر میرٹ کو ترجیح دی جاتی تو یقیناً آج یہ بازگشت بھی سنائی نہ دیتی کہ شاید میاں صاحب ایک بار پھر غلطی کر بیٹھے ہیں۔