نیٹو سپلائی کی بندش، منسلک افراد روز گار سے محروم

NATO

NATO

کراچی (جیوڈیسک) تحریک انصاف کے دھرنے کا آج گیارہواں دن ہے، نیٹو سپلائی کی بندش سے مقاصد پورے ہوئے یا نہیں، مگر نیٹو سپلائی سے جڑے کتنے ہی کام دھندوں کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔

گرانڈ لائن آف کمیونی کیشن معاہدے کے تحت پاکستان سے روزانہ 120 نیٹو کنٹینرز گزر سکتے ہیں، جن سے کنٹینرز مالکان، سے لے کر سپلائی لائن کے راستے میں آنے والے ہوٹلز، اور کنٹینر کے کلینرز تک سبھی کماتے تھے۔

مگر نیٹو سپلائی بند کرنے کے اعلانات اور نیٹو کنٹینرز کو آگ لگانے کی دھمکیوں کے بعد سپلائی سے جڑے افراد میں غیر یقینی پیدا ہو گئی۔ جس روٹ سے ایک دن میں ایک سو بیس ٹرک گزرنے تھے، وہاں اب تعداد یومیہ 20 سے 22 کنٹینرز تک محدود ہو گئی ہے۔

اس روٹ سے نیٹو سامان ہی نہیں، بلکہ افغانستان کی برآمدات بھی گزرتی ہے، نیٹو سپلائی بند ہونے سے یہ برآمدات بھی متاثر ہو تی ہے، یوں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتی ہے۔ اگر افغانستان 100 کنٹینر جائیں تو ان میں 94، برآمدات کے اور صرف 6 نیٹو کی سپلائی کے ہوتے ہیں۔

یہی نیٹو سپلائی پاکستان کے دفاع کیلئے بھی ضروری ہے کہ امریکا عسکری سامان کی ڈلیوری بھی، اسی نیٹو سپلائی کے ساتھ ہی کرتا ہے۔ ٹرانسپورٹر ایک پھیرے میں 3 سے 4 لاکھ روپے وصول کرتے ہیں۔

ایک کنٹینر یومیہ 29 ہزار روپے ٹول ٹیکس، اور ایک لاکھ روپے سے زائد فیول ٹیکس، اور کم از کم پانچ ہزار روپے بندرگاہ چارجز کی مد میں جمع کراتا ہے، اگر صورت حال بہتر ہوتی تو ٹول ٹیکس، بندرگاہ چارجز کی مد میں یومیہ آمدنی دو کروڑ سے بھی زیادہ ہوتی، یوں 10 دن کی بندش سے قومی خزانے کو 22 کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے۔