مجھ پر یہ رازِ نہاں کہ علم کی دولت بھی چوری ہو سکتی ہے شائد کبھی عیاں نہ ہوتا اگر میں نئے کاروبار کیلئے اپنے عزیز دوست کمالا ٹھگی سے مشورہ نہ لیتا، کمالے کا کمال یہی ہے کہ اُس کا مشاہدہ بے انتہا وسعی اور نظر کمال کی ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے بڑے بوڑھوں سے بس یہی سنتے چلے آ رہے ہیں کہ، علم سب سے بڑی اورلازوال دولت ہے، ایک ایسا خزانہ ہے جسے کوئی چُرا نہیں سکتا مگر اب ہوش سنبھال لینے کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ شائد یہ لازوال دولت ہمارے بڑے بوڑھوں کے اقوال کے ساتھ ہی اِس عالمِ فانی سے کب کی رخصت ہو چکی ہے۔
کیونکہ اب یہ دولت صرف سِکے والوں کی گرفت میں ہے غریب کے بچے کیلئے اسکول کی دہلیز پار کرنا انتہائی مشکل ترین بن چکا ہے۔ ہاں تو میں بات کر رہا تھا کمالا ٹھگی کی ،کمالے ٹھگی کا کہنا ہے کہ بچپن میں کِسی انفیکشن کی وجہ سے اُس کی بینائی کمزور ہو گئی تو اُس کا ندھا ،بہرہ اور گونگا باپ ساتھ لیجا کر اُس کی آنکھوں کا کامیاب آپریشن کر وانے کے بعد ابھی گھر آیاہی تھا کہ سرجن صاحب پیچھے پیچھے ہی گھر پہنچ گئے اور کہنے لگے ” جناب! آپ کے لختِ جگر کو ہم نے بکرے کی آنکھیں لگانی تھیں مگر غلطی سے اِسے عقاب کی آنکھیں لگ گئی ہیں لحاظہ اب اِس کا دوبارہ آپریشن کرنا ہوگا آپ کہیں تو ہم انسان کی آنکھوں کا بندوبست کر کے کِسی قابل ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں۔
جب کمالے ٹھگی کی اپاہج ماں نے ڈاکٹر کی یہ بات سُنی تو وہ سمجھ گئی کے مجھ دکھیاری کا خاوند غلطی سے اِسے بھی کِسی ڈنگر ڈاکٹر کے پاس لے گیا ہے۔ کمالا کہتا ہے کہ مجھ پر جان چھڑکنے والے میرے باپ نے ڈاکٹر کو صاف اور کھرا جواب دے دیا ”نہیں انسان کی آنکھوں میں تو ویسے ہی حیاء ختم ہو چکی ہے یہ عقاب کی آنکھیں ہی ٹھیک ہیں میرا بیٹا اِن آنکھوں سے ہر کام پر کمال کی عقابی نظر رکھے گا”بس اُس روز سے میرا نام کمالا پڑ گیایہ ٹھگی کا اضافی نام تو تم جیسے دوستوں کی دین ہے۔ آج میں کامیاب ترین کمالا ٹھگی ہوں اور ادھر کی ٹھگی اُدھر اور اُدھر کی ٹھگی اِدھر بتا کر چار، آٹھ پیسے کما لیتا ہوں۔
School
کمالے ٹھگی نے کہا ” تم میری مانواور ایک چھوٹا سا پرائیویٹ اسکول کھول لو جو دیکھتے ہی دیکھتے بڑا خود ہی ہوجائے گا اِس طرح خدمتِ تجوری بھی خوب ہوگی اور خدمتِ خلق بھی ”خدمتِ تجوری والی بات سنکر میں خوش ہوگیا اور پوچھا ”مگر کیسے؟ مجھے تو اسکول چلانے کا کوئی تجربہ نہیں میں تو خود چل کر اسکول بڑی مشکل سے جاتا تھا اب اُسے کیسے چلائوں گا اورتم تو میری تعلیمی قابلیت کو جانتے ہی ہو انگلش بولنا میری صحت کیلئے مضر ثابت ہو سکتا ہے”میری بات سنکر کمالے نے ایک زور دار قہقہہ لگایا”یار تم نے کچھ بھی نہیں کرنا بس اسکول کھولنا ہے اور پڑھنے پڑھانے کا کام تو اُستانیاں کریں گی وہ بھی صرف پندرہ سو روپے سے دو ہزارروپے ماہانہ پر ایک ایک اُستانی پچاس پچاس بچوں کو پڑھائے گی اور ہر ماہ کے آخر میں صرف ایک یا دیڑھ بچے کی فیس اُسے دیدیا کرنا باقی آڑتالیس ،ساڑھے آڑتالیس بچوں کی فیس ہر کلاس سے بچے گی۔اب آگے اندازہ خود لگا لو کہK.G-1،K.G-2،نرسری ،پریپ وغیرہ مِلا کر دسویں تک کتنی کلاسیں بنتی ہیں اور پچاس بچے تو صرف ابتداء ہیں ”ہفتہ اتوار دو چھٹیاں انجوائے کرو، دو حادثاتی ہو جائیں گی یوں دس دِن آرام کرنے کے باوجود پورے ماہ کی فیس وصول کرو۔ میں متجسس کھڑا کمالے ٹھگی کی تمام گفتگو سُن رہا تھا۔
” اصل منافع اور بونس تو میں تمہیں اب بتائونگا غور سے سنو! تم تمام سٹوڈنٹس پر یہ شرائط لاگو کر دینا کہ کا پیاں اسکول کی پرنٹ شدہ ہی استعمال ہوں گی اِس کے علاوہ مکمل کورس اور یونیفارم اسٹوڈنٹس کو تم ڈبل قیمت پر فروخت کر سکتے ہو یقین جانو آج کل اِس نفسا نفسی کے دور میں والدین کے پاس ٹائم ہی کہاں ہے کہ دوکانوں پر دھکے کھاتے پھریں۔اسکول کے گیٹ پر ایک کنٹین بھی بنانا اُس کنٹین کے منافع سے تم چوکیدار کی تنخواہ کے علاوہ اپنی گاڑی کی منٹینس اور فیول کا خرچہ بھی نکال سکتے ہو۔کنٹین کو بُک اور اسٹیشنری شاپ کا درجہ دے کر ساتھ ہی ایک فوٹو سٹیٹ مشین بھی لگا لینا۔ اب ہر تین ماہ بعد پیپرز کا انعقاد کرنا اور ہر بچے سے پیپر منی فنڈز منگوانا آئے دِن چھوٹے موٹے فنکشنز جیسے کلر ڈے، ٹرپ، پارٹی، میجک شوز، سٹوڈنٹس ڈے، پیرنٹس ڈے، خود ٹیچرز ڈے نیو ایڈمیشن استقبالیہ ڈے،فلاور ڈے تم چاہو تو اپنا پرنسپل ڈے بھی منا سکتے ہو یوں چھوٹے موٹے فنڈز بجلی پانی کے بِلوں کا بوجھ برداشت کر لیں گے اور بچوں کی مصروفیت کی وجہ سے اساتذہ کو اتنا دماغ بھی کھپانا نہیں پڑے گا۔
تمام بچوں کو یہ درس لازمی دینا کہ تمام بچے پینے کیلئے بائل شدہ پانی استعمال کیا کریں اور ایک دوسرے کے جوٹھے برتن سے بھی پرہیز کریں یوں بچے والدین کو زور دیں گے کہ ہمیں تھرماس لے کر دواور تمہیں الیکٹرک واٹر کولر خرید نے کی بھی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔ چھوٹی کلاسوں میں فیس کے ساتھ ہی سالانہ اسٹیشنری چارج بھی وصول کر لیا کرنا اور یہ کلاس ٹیچر کی ذمہ داری ہو کہ ایک ہی شاپنر سے تمام کلاس کی پینسلیں پورے چھ ماہ تک گھڑ گھڑ کر دیتی رہیںاور صرف ایک ہی ریزر تمام کلاس میں گردش کرتا پھر ے اب چھٹی کے وقت تمام نونہالوں سے قیمتی پینسلیں واپس لے کر اکلوتے ربڑ اور کٹر کے ہمراہ اگلے روز تک کیلئے تجوری میں رکھ لی جائیں ۔اِس آنے والے منافع سے تم اسکول کی عمارت اور کلاسز کو خوبصورت ترین بنا سکتے ہو۔والدین کو کلاسز کا سروے ہر گز مت کروانابس اپنے ذاتی آفس پر لاکھ ڈیڑھ لاکھ خرچہ کر لینا۔علاقے میں اسکول کا معیار ہونا چاہیے اِس لئے پاسنگ مارکس دینے میں درویش بن جانا۔ تمام بچے اسکول کی ہی اکیڈمی جوائن کریں یہ مہارت و کمال بمعہ تمہارے تمام ٹیچرز کو دکھانا ہو گا۔ ہاں ایک اور عقلمندی ضرور کرنا ایڈمیشن فیس اکثر چھوڑ دیا کرنایا آدھی معاف کردینا مگر دس مرتبہ جتلانے کے بعدبس کِسی بھی طرح آئے مہمان کو خاطر تواضع کیے بِنا جانے نہیں دینااور اب اِس کے آگے تم اچھی طرح سمجھتے ہو ،یاد رکھنا پانی اپنا راستہ خود ہی بناتا ہے تم بھی رفتہ رفتہ کاریگر بنتے چلے جائو گے۔ لوگ تمہاری عزت کریں گے کہ یہ انسان تعلیم و تربیت کی اِس درسگاہ کے ذریعے خواندگی کا ذریعہ بن رہا ہے۔
اِس طرح تم نہ صرف علم کی دولت بانٹوں گے بلکہ اِسی علم سے دولت سمیٹوں گے بھی… بس بئی اب اِس سے زیادہ میں اور کچھ نہیں بتا سکتا کیونکہ کِسی کا راز فاش کرنا بہت بُری بات ہوتی ہے” کمالا ٹھگی صرف بول رہا تھا اور میں نے خیالوں میں اسکول کی ایک عالی شان عمارت تعمیر بھی کر لی تھی۔ اُس کے خاموش ہونے پر میں صرف اتنا ہی کہہ سکا ”اگر حکومت نے تمام ایسے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا نوٹس لے کر غریبوں کے حق میں کوئی معقول اور بہتر حکمتِ عملی بنا ڈالی تو پھر میرا کیا ہو گا؟ اور اگر جمع کرنے کے بعد میری یہ علم کی دولت چوری ہو گئی تو پھر؟۔
Muhammad Ali Rana
تحریر : محمد علی رانا چیئر مین : وومن اینڈ چلڈرن ویلفیئر آرگنائزیشن muhammadalirana26@yahoo.com facebook.com/pages/Muhammad-Ali-Rana/662146980474437?ref=hl