اسلام آباد (جیوڈیسک) موجودہ حکومت کے دور میں پاکستانی روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں دس فیصد سے زائد گر چکی ہے لیکن وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اگلے چار ماہ تک شرح تبادلہ اٹھانوے روپے پر واپس آ جائے گی۔
اس برس پانچ جون کو موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے وقت ڈالر کا ریٹ اٹھانوے روپے پچاس پیسے کے لگ بھگ تھا، جو جولائی میں ایک سو روپے کی نفسیاتی حد پار کر گیا۔ اگست میں پاکستانی روپے کی قدر مزید گر گئی اور ڈالر کا ریٹ ایک سو چار روپے پر پہنچ گیا۔
اکتوبر میں ڈالر مزید مہنگا ہو کر ایک سو سات روپے کا ہو گیا اور نومبر میں آئی ایم ایف کو قرض کی بھاری اقساط کی ادائیگی کے باعث روپے پر دبا ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا اور اوپن مارکیٹ میں قیمت ایک سو دس روپے کی حد بھی پار کر گئی، اس وقت انٹر بنک میں بھی ڈالر کی قیمت ایک سو آٹھ اور ایک سو نو روپے کے درمیان چل رہی ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ایک سو گیارہ روپے تک بک رہا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت کو روپے کی شرح تبادلہ بڑھانے کے لئے سرکاری زر مبادلہ کے ذخائر کو کم از کم آٹھ ارب ڈالر تک بڑھانا پڑے گا جو اس وقت ساڑھے تین ارب ڈالر تک گر چکے ہیں۔