حضرت لقمان رحمتہ اللہ علیہ

Hazrat Luqman Hakeem

Hazrat Luqman Hakeem

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں: حضرت لقمان جو حکیم توسب کے نزدیک ہیں اور بعض توان کو پیغمبر بھی تصور کرتے ہیں۔ ایک باغ میں نوکری کر لی۔ اس سے سبق لینا چاہیے کہ حلال پیشہ کو حقیر نہ سمجھنا چاہیے۔ مالک باغ میںآیا اور ان سے ککڑیاں منگائیں اور اس کو تراش کر ایک ٹکڑا ان کو دیا۔ یہ بے تکلف کھاتے رہے۔ اس نے یہ دیکھ کر کہ یہ بڑے مزے سے کھارہے ہیں سمجھا کہ ککڑی نہایت لذیز ہے۔ ایک قاش اپنے منہ میں رکھ لی تو وہ کڑوی زہر تھی۔ فوراً تھوک دیا اور بہت منہ بنایا۔پھر کہا: اے لقمان! تم تو اس ککڑی کو بڑے مزے سے کھا رہے ہو، یہ تو کڑوی زہر ہے۔ کہا: جی ہاں! کڑوی تو ہے۔ اس پر مالک نے کہا پھر تم نے کیوں نہیں کہا کہ یہ کڑوی ہے۔ آپ نے فرمایا میں کیسے کہتا۔ مجھے یہ خیال ہوا کہ جس ہاتھ سے ہزاروں دفعہ مٹھائی کھائی ہے اگر اس ہاتھ سے ساری عمل میں ایک دفعہ کڑوی چیز ملی تو اس کو کیا منہ پر لاؤں۔

حضرت لقمان رحمتہ اللہ علیہ کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے۔ آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے بھانجے یا خالہ زاد بھائی تھے۔ تقریباً ایک ہزار برس عمر پائی تھی۔ آپ نے حضرت داؤد علیہ السلام کا زمانہ نبوت پایا تھا۔ ان سے ملاقات بھی کی تھی اور علم بھی حاصل کیا تھا۔ آپ حضرت داؤد علیہ السلام کی بعثت تک فتویٰ دیا کرتے تھے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ بنی اسرائیل کے قاضی تھے اور مصر کے رہنے والے تھے۔ آپ کے پیشہ کے متعلق مختلف آراء ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ آپ ترکھان تھے یا چرواہے، درزی، دربان یا مالی تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ غلام تھے اور آپ کے آقا بدلتے رہتے تھے۔ لہذا جس آقا نے جس کام پرلگادیا ہو گا اس پر لگ گئے ہوں گے۔

Allah

Allah

آپ ایک نیک اور صالح انسان تھے۔ آپ اللہ کے ولی تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکمت و دانائی عطاء فرمائی تھی۔ قرآن مجید میں آپ کے نام سے موسوم ایک سورة سورة لقمان موجود ہے جس میں آپ کی اپنے بیٹے کو چند حکمت آمیز نصیحتوں کا ذکر ہے۔ یہ کہ”بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا اگرچہ کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو، پھر وہ بھی خواہ کسی پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں، اسے اللہ تعالیٰ لاحاضر کریں گے”اور یہ کہ بیٹا نماز پڑھا کر اور اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا،برے کاموں سے منع کرتے رہنا اور جو مصیبت تم پر آئے اس پر صبر کرنا جو بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے، لوگوں کے سامنے اپنے رخسار نہ پھلا، زمین پر اترا کر اور اکڑ کر نہ چل۔ بے شک اللہ تعالیٰ کسی تکبر کرنے والے ، فخرکرنے والے کو پسند نہیں کرتا اور اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز کو پست کر بے شک آوازوں میں سب سے بڑی آواز گدھے کی ہے۔

حضرت لقمان رحمتہ اللہ علیہ کی حکمت و دانائی کے موتیوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں اس وقت صرف چند ایک کا ذکر کروں گا۔ آپ نے فرمایا:(1)بیٹا دنیا ایک گہرا سمندر ہے۔ جس میں بہت سے لوگ غرق ہو چکے ہیں۔ تجھے چاہیے کہ تو دنیا کے اس سمندر میں اپنی کشتی تقویٰ کو بنا لے، جس کا بھراؤ ایمان، جس کا بادبان توکل علی اللہ ہو، ممکن ہے اس صورت میں تو اس سے بچ جائے، ورنہ نجاب نہیں ہو سکتی۔(2)جو جھوٹ بولتا ہے اس کے چہرہ کی رونق چلی جاتی ہے۔ جس کے اخلاق برے ہوتے ہیں اسے غم بہت زیادہ ہوتا ہے، چٹانوں کو ان کی جگہ سے منتقل کر دینا زیادہ آسان بہ نسبت ناسمجھ کو سمجھانے کے،(3)بیٹا تو اگر کسی سے بھائی بندی کرنا چاہتا ہے تو اس سے پہلے اسے غصہ دلا کر دیکھ لے اگر وہ اس غضب و غصہ کی حالت میں تیرے ساتھ انصاف کرے تو فبھا ورنہ ایسے شخص سے بچ۔(4)بیٹا قرضہ لینے سے بچ کیونکہ قرضہ دن کی ذلت اور رات کی فکر کا باعث ہے۔(5)بیٹا ان باتوں کے کرنے سے رک جا جو تیرے منہ سے نکلتی ہیں کیونکہ جب تک تو چپ رہے گا سلامت رہے۔البتہ ایسی بات کر جس سے تجھے کوئی فائدہ حاصل ہو۔
حضرت عمرو بن قیس رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو یہ مقام کیسے حاصل ہوا تو آپ نے فرمایا: اس کی وجہ میرے دو کام ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیشہ سچ بولنا اور فضول باتوں سے اجتناب کرنا۔

سید التابعین حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیاہ فام لوگوں میں سے تین بہترین لوگ سیاہ فام ہوئے ہیں۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام مھجع رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت لقمان رحمتہ اللہ علیہ، یہ وہ حکیم ہیںجنکا قرآن پاک میں تفصیلاً ذکر آیا ہے۔

Quran

Quran

ایک انگریز نے قرآن کے مطالعہ کے بعد کہا تھا کہ “Burn all the libraries, for their khowledge is in the Quran”پیارے نبی ۖ کی سیرت اقدس، صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم کی سیرت اورافکار، تابعین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تبع تابعین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے افکار اور اولیا ء اکرام، صوفیاء اکرام اور مفکرین اسلام کی حکمت و دانائی کے ذخائر مسلمانوں کی میراث ہیں۔ یہ وہ ذخائر ہیں جن سے مسفید اور ان پر عمل پیرا ہونے سے غیر مسلموں نے ترقی کی منازل طے کیں اور آج ہمیں وہی غیر مسلم اخلاقیات کا درس رہے ہیں۔ اس لیے کہ ہم بھٹکے ہوئے اور غافل ہیں کہ اپنے ناجائز خزانوں کو چھپانے کے لیے کئی جتن کرتے ہیں۔ کمزور اور ناتواں ہونے کے باوجود اس دھرتی پر تکبر اور فخر کے ساتھ اکڑ کر چلتے ہیں۔ اپنی گفتگو کردار اور اطوار میں میانہ روی کی بجائے انتہا پسندی کو اپنی انا سمجھتے ہیں اور پوری دنیا کے سامنے میڈیا پر گفتگو کرتے ہوئے اپنی آوازوں کو پست کرنے کی بجائے چیخ چیخ کر گدھے سے بھی بدتر کر دیتے ہیں۔ تقویٰ اور توکل علی اللہ کی بجائے مادی اور فانی قوتوں پر بھروسہ کر کے اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔

منافقت، جھوٹ اور بے عمل زندگی کی وجہ سے ہمارے چہروں کی رونقیں غائب ہو چکی ہیں۔ غیض و غضب میں ہم انصاف کا دامن اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم دوسروں سے گلہ اور اپنی پسماندگی کا رونا روتے رہتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ ہم اپنے اسلاف کی دانائی اور حکمت کے خزانوں سے راہنمائی حاصل کر کے اپنی کھوئی ہوئی عزت اور مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ میں اپنے خداوند کریم سے دعا گوہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت لقمان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی دانائی، حکمت سے بھرپور باتوں پر عمل کرنے اور عبرت انگیز واقعات سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

تحریر : عبدالقیوم گوندل DSPکھاریاں
qayyum.gondal@gmail.com
0300-6268621