راحیل شریف سے آرمی چیف تک

Ashfaq Parvez Kayani

Ashfaq Parvez Kayani

29نومبر کو راولپنڈی کے ہاکی سٹیڈیم میں پاک آرمی کی ایک پروقار تقریب ہوئی جس میں ریٹائر ہونے والے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے نو منتخب چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کو چھڑی پیش کی۔ اس کے بعد جنرل راحیل شریف پاکستان کے پندرہویں چیف آف آرمی سٹاف بن گئے۔ جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت پاکستان نے ایک ایسے جرنیل کو چیف آف آرمی سٹاف بنا یا جس کے خاندان کے سینے پر نشان حیدر کا اعزاز سجا ہوا ہے۔

جنرل راحیل شریف 16 جون 1956 کو کوئٹہ میں محمد شریف کے ہاں پیدا ہوئے۔ان کے والد محمدشریف بھی آرمی میں میجر تھے۔ ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف اور کیپٹن ممتاز شریف ہیں۔ میجر شبیر شریف شہید کے نام سے تو پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے۔ اس نام کو توہم بچپن سے کتابوں میں پڑھتے چلے آرہے ہیں ۔میجر شبیر شریف نے1971کی جنگ میں نشان حیدر پاکر اپنااور اپنے خاندان کانام پاکستان کی تاریخ میںسنہری حروف میں لکھوادیا۔نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کا تعلق فوجی پس منظر رکھنے والے خاندان سے ہے۔ جنرل راحیل کو مطالعے کے ساتھ ساتھ شکار اور تیراکی کا بہت شوق ہے۔جنرل راحیل شریف کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔

جنرل راحیل شریف نے گورنمنٹ کالج لاہور اور پاکستان ملٹری اکیڈمی سے تعلیم حاصل کی۔ 1976 میں کمیشن حاصل کیا اور فرنٹیئر کور رجمنٹ کی سکستھ(6th) بٹالین میں شمولیت اختیار کی۔ ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف شہید نے بھی اس بٹالین میں رہتے ہوئے شہادت پائی اور نشان حیدر حاصل کیاتھا۔نوجوان افسر کے طور پر راحیل شریف نے گلگت میں ایک انفنٹری بریگیڈ میں فرائض انجام دیئے اور پاکستان ملٹری اکیڈمی میں ایڈجوٹینٹ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

جنرل راحیل شریف نے جرمنی سے کمپنی کمانڈر کورس کیا اور معتبر ادارے اسکول آف انفینٹری اینڈ ٹیکٹکس میں انسٹرکٹر کے طور پر فرائض انجام دیئے۔آپ نے کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کینیڈا سے امتیازی حیثیت میں گریجویشن کی۔ جنرل راحیل شریف کو کمانڈ، اسٹاف اور انسٹرکشنل عہدوں پر کام کا وسیع تجربہ ہے۔ انہوں نے ایک انفینٹری بریگیڈ کے بریگیڈ میجر کے طور پر کام کیا جبکہ لائن آف کنٹرول اور سیالکوٹ بارڈر کے قریب دو انفنٹری یونٹوں کی کمانڈ بھی کی۔وہ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کی فیکلٹی میں بھی رہے اور 1998 میں نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی اسلام آباد سے آرمڈ فورسز وار کورس کیا۔

Raheel Sharif

Raheel Sharif

جنرل راحیل شریف نے رائل کالج آف ڈیفنس اسٹڈیز برطانیہ سے بھی گریجویٹ ہیں۔ وہ ایک انفنٹری ڈویڑن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنٹ بھی رہے۔ لیفٹننٹ جنرل کے طور پر انہوں نے دو سال تک 30 کور کے کور کمانڈر کے طور پر فرائض انجام دیئے جس کے بعد انہیں انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈان ویلیوایشن (training and evaluation) تعینات کردیا گیا۔ جنرل راحیل شریف کو ان کی گراں قدر خدمات کے صلے میں ہلال امتیازملٹری کا اعزاز سے بھی نوازا گیا ہے۔

جنرل راحیل شریف پاکستانی فوج کودرپیش اندرونی چیلنجوںکے لیے کئی سالوں پر محیط کوششوں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف اپنے فوجی کریئر میں ایک ایسے افسر کے طور پر شہرت رکھتے ہیں جنہوں نے گذشتہ کئی برسوں میں فوج کو جدید خطوط پر تربیت دینے اور اسے ملکی سرحدوں کے اندر درمیانے درجے کی لڑائیوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے تیار کرنے کے لیے وقف کیے۔ جنرل راحیل نے گذشتہ چند برس فوج کے تربیتی شعبے کے سربراہ کے طور پر گزارے ہیں۔ اس دوران ان کی کارکردگی کو بہت اعلیٰ درجے کی قرار دیا جاتا ہے۔

جنرل راحیل نے تقرری کی اس قلیل مدت میں پاکستانی فوج کے تقریباً تمام اہم تربیتی کورسز کو از سر نو مرتب کر کے انھیں جدید ضروریات سے ہم آہنگ کیا ہے۔خاص طور پر سرحدوں کے اندر امن کے قیام اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لیے فوج کو تیار کرنے کے لیے جنرل راحیل شریف کے تیار کردہ تربیتی مینولز (manuals) خاصے پسند کیے گئے اور فوجی قیادت نے ان کتابچوں کو اعلیٰ معیار کا حامل قرار دیا۔

ایک خاص بات جہاں جنرل راحیل کا تعلق فوجی خاندان اور شہید ہونے والوں سے ہے ادھر ان کے ماموں بھی پاکستان کے ہر دلعزیز فوجی تھے۔ میجر عزیزبھٹی شہید رشتے میں چیف آف آرمی سٹاف کے ماموں لگتے ہیں۔ جس چیف کے دودو قریبی رشتے دار نشان حیدر کے حقدار ٹھہرے ہوں اور ملک کے لیے اپنی جان قربان کی ہو تو پھر اس خاندان کے اس چشم و چراغ کے بارے میں آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیںکہ اس کے اپنے وطن کے لیے کیا ارادے ہونگے۔

جنرل راحیل شریف نے الحمداللہ نئے چیف کی کمان تو سنبھال لی مگر انہیں اس وقت بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ جن میں سرفہرست ڈرون اٹیک اور دہشت گردی ہے۔ اب ان کی قائدانہ اور مدبرانہ صلاحیتوں کا امتحان شروع ہوگیا ہے کہ وہ ان مسائل سے کس طرح چھٹکارا حاصل کرتے ہیں۔ انکی صلاحیتوں سے انکار نہیں مگر وطن عزیز کی خاطر ان کے فیصلے بہت اہم ہیں۔

Aqeel Khan

Aqeel Khan

تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com